مظفرنگر فسادات تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش

فائلوں کے سرقہ کے پس پردہ فرقہ پرست عناصر سرگرم
لکھنؤ ۔ 11 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) مظفرنگر سمیت مغربی یوپی کے حالیہ ہولناک فرقہ وارانہ فسادات کی تحقیقات کرنے والے سبکدوش ہائیکورٹ کے جج مسٹر وشنو کانت سہائے کی قیادت والے کمیشن کو صحیح سمت تحقیقات نہ کرنے دینے کمیشن پر اپنا دباؤ بڑھانے کیلئے مبینہ طور پر سنگھ پریوار، بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو وادی تنظیموں نے کل اچانک جانچ کمیشن کے دفتر (گومتی نگر کے دنیت کھنڈ) میں گھس کر وہاں کے سیکوریٹی گارڈ ارجن سے پستول کے نال پر دفتر کے اندر رکھی الماری کی کنجیاں مانگیں جو سیکوریٹی گارڈ کے پاس نہیں تھیں، جس کی وجہ سے یہ بدمعاش جن کی تعداد دو بتائی جاتی ہے، الماری کی تو تلاشی نہیں لے سکے لیکن انہوں نے دفتر میں ایک دراز میں رکھے کاغذات جو مظفرنگر فسادات سے متعلق لوگوں کے تھے،

ان کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور اس کے بعد انہوں نے اس معاملے میں اپنے موبائیل سے کسی سے فون پر بات چیت کی۔ اس کے بعد وہ اپنی گاڑی پر بیٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ کمیشن کے سیکوریٹی گارڈ ارجن نے اس معاملے میں گومتی نگر تھانہ میں نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کرائی ہے۔ گومتی نگر تھانہ کی پولیس نے اس معاملے میں رپورٹ درج کرکے مقدمہ قائم کرلیا ہے۔ اس نے ارجن کا بیان ریکارڈ بھی درج کیا ہے لیکن فی الحال پولیس اس پورے معاملے کو شکوک مان رہی ہے۔ اگر یہ کمیشن کے دفتر پر سیکوریٹی بڑھا دی گئی ہے، اس کمیشن کے دفتر میں ابھی باقاعدہ جانچ کا کام اس لئے شروع نہیں ہوسکا نہ ہی یہاں پورا ریکارڈ رکھا جاسکا ہے کیونکہ دفتر میں شنٹنگ کا کام چل رہا ہے۔

یاد رہیکہ جب سماج وادی پارٹی حکومت نے اگست، ستمبر میں مظفرنگر وغیرہ کے فسادات کی جانچ کیلئے ہائیکورٹ کے سبکدوش جج وشنو کانت سہائے کو فسادات کے تمام پہلوؤں کی جانچ سونپی تھی اور کمیشن کو دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ دینے کو کہا تھا، کمیشن اتنے بڑے فساد کی تحقیقات کا کام دو مہینے میں پورا ہی نہیں کرسکتا تھا اس لئے حکومت نے اس کمیشن کی مدت ڈسمبر سے چھ مہینے کے بڑھا کر جون تک کردی ہے۔ کمیشن کا عارضی دفتر مظفرنگر میں ہے جو اب لکھنؤ کے اپنے مستقل دفتر میں شفٹ کیا جارہا ہے۔ جسٹس وشنو سہائے نے مظفر نگر فسادات سے متعلق درجنوں افراد کے بیان ریکارڈ بھی کئے ہیں۔ بتایا جاتا ہیکہ بھارتیہ جنتا پارٹی، سنگھ پریوار اور اس کی ہمنوا تنظیموں نے جسٹس سہائے کے نام کی مخالفت یہ کہہ کر شروع کردی تھی کہ جسٹس سہائے ملائم سنگھ یادو اور سماج وادی پارٹی سے قربت رکھتے ہیں۔

اس لئے ان کی رپورٹ غیرجانبدارانہ نہیں ہوسکتی ہے۔ جسٹس سہائے کے دفتر پر فائلوں سے غائب کرنے کی کوشش کو اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ ماضی میں بھی یہ تنظیمیں بابری مسجد ؍ رام جنم بھومی سے متعلق اہم سرکاری دستاویزات فائلیں جن کی تعداد دو درجن سے بھی زائد تھیں، ان کو سیول سکریٹریٹ سے غائب کرچکی ہیں۔ یہ فائلیں ہائیکورٹ نے طلب کی تھیں، جس کے جواب نے راست کے محکمہ داخلہ نے ہائیکورٹ کو مطلع کیا تھا کہ یہ فائلیں سکریٹریٹ سے غائب ہوگئی ہیں۔ الہ آباد ہائیکورٹ میں ہندو مہا سبھا نے جو رٹ داخل کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ ہندو وادی تنظیموں نے اٹل بہاری واجپائی کے دورحکومت میں ایودھیا سمیت فرقہ وارانہ فسادات جو ملک کے مختلف حصوں میں ہوئے تھے، ان کی تقریباً تین ہزار فائلیں، رپورٹیں غائب کردی تھیں۔ جسٹس سہائے کمیشن کے دفتر سے فائلوں کی اڑانے کی تازہ کوشش پر الہ آباد ہائیکورٹ کے وکلاء، سیاسی لیڈروں نے اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے

اسے سنگھ پریوار کی ایک منظم سازش بتایا ہے۔ کمیشن سے فائلوں کو لوٹنے کی کوشش کے تار کو بعض سرکاری اہلکار مبینہ مسلم دہشت گرد تنظیم لشکرطیبہ سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ گذشتہ دنوں دہلی پولیس کی خصوصی ٹیم نے مظفرنگر شاملی کے کہ جن دو نوجوانوں کو لشکرطیبہ کے لوگوں کے رابطہ میں آنے کی جو بات کہی ہے، وہ اگر درست ہے تو پھر مظفرنگر فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس وشنو سہائے کمیشن کے دفتر سے فائلوں سے اڑانے میں بھی ان عناصر کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ بہرحال مظفرنگر فسادات تحقیقاتی کمیشن کے دفتر پر حملہ دراصل مظفرنگر وغیرہ میں حالات کو معمول پر نہ لانے کی کوشش کا ایک حصہ ہیہے۔ گذشتہ دنوں مظفرنگر، میرٹھ، سمیت مغربی یو پی میں مظفرنگر فسادات کا سچ ، فیصلہ آپ کا؟ بھارت درالحرب رہے گا یا دارالسلام کے کتابچوں کی تقسیم جو آر ایس ایس کرا رہی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہیکہ سنگھ پریوار اور اس کی ہمنوا تنظیمیں مغربی یوپی میں حالات نارمل نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ وہ اس طرح کے حالات لوک سبھا کے الیکشن کے نزدیک تک بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ جسٹس سہائے کمیشن پر حملہ کے معاملے میں گومتی نگر کی پولیس جس طرح سے خانہ پری کررہی ہے اس سے پولیس کی کارروائی پر تمام طرح کے سوالیہ نشان اٹھائے جارہے ہیں۔