مظفرنگر ۔ 22 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) حکومت اترپردیش کی جانب سے فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ اضلاع شاملی اور مظفرنگر میں ریلیف کیمپوں کو بند کردیئے جانے سے متعلق سرکاری اعلان کے باوجود ان عارضی کیمپوں میں ہنوز ہزاروں مسلم فساد متاثرین مقیم ہیں۔ ہزاروں مسلمان ان عارضی کیمپوں میں بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گذار رہے ہیں۔ تقریباً 350 خاندان جن کی تعداد 20 ہزار نفوس پر مشتمل ہے، ملک پور، برنوی، کھنڈیلا اور بھنورا محلوں میں واقع 8 کیمپوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ضلع شاملی کے ان محلوں میں عارضی کیمپس قائم کئے گئے تھے جہاں ہزاروں فساد متاثرین مقیم تھے لیکن اکھیلیش یادو حکومت نے پہلے ہی ان کیمپوں کو بند کردینے کا اعلان کیا تھا۔ گذشتہ چند ماہ سے یہاں رہنے والے یہ فساد متاثرین چاہتے ہیں کہ انہیں بہتر سیکوریٹی فراہم کی جائے۔ وہ ہنوز خوف وہراس کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ اپنے مواضعات کو واپس نہیں جانا چاہتے۔ ایک فساد متاثرہ شہری گلشاد نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے مکانات تعمیر کرے جہاں ہم اپنی زندگی پرسکون طور پر گذار سکیں اور گذارے کیلئے کچھ کما سکیں۔
ملک پور میں واقع کیمپوں میں سے ایک کیمپ میں وہ مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فساد متاثر علاقوں میں اب بھی خوف کا ماحول پایا جاتا ہے۔ جب سے عہدیداروں نے کیمپوں کو بند کردینا شروع کیا ہے تبھی سے ہی حکومت نے فساد متاثرین کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا بھی روک دیا ہے لیکن ضلع شاملی کے چیف میڈیکل آفیسر ایل کے گپتا نے بتایا کہ ہم اب بھی روزانہ کی اساس پر دودھ سربراہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ہر دوسرے دن ان ریلیف کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے بیماروں کا علاج کررہی ہے۔ ہم عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنی آبائی مقامات کو واپس چلے جائیں۔
ضلع مظفرنگر میں بھی صورتحال اسی طرح ہے۔ یہاں پر ریلیف کیمپوں کو بند کردینے کے اعلان کے بعد سے تقریباً 6 ہزار افراد عارضی کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ اجڑے ہوئے کیمپ ہی فساد متاثرین کی قسمت کی طرح خوفناک منظر پیش کررہے ہیں۔ ان سنسان ریلیف کیمپوں میں رہنے والے باقی ماندہ فساد متاثرین کی زندگی ابتر ہے۔ بعض افراد نے ریلیف کیمپوں کے قریب واقع مکانات کو کرائے پر حاصل کیا ہے۔ مقامی بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر دھرمیندرا ملک نے کہا کہ بعض افراد کرایہ کا مکان حاصل کرتے ہوئے اپنے خاندانوں کو منتقل کررہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے آبائی وطن جانا نہیں چاہتے۔ عہدیداروں کے مطابق 150 خاندان اب بھی کیمپوں کے اندر اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں مقیم ہیں۔ جن کی زندگی روزمرہ ابتر ہوتی جارہی ہے۔ شدید سردی کے باعث یہ لوگ ٹھٹھر گئے ہیں۔