ستوے ۔27 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) مائنمار کی مغربی ریاست راکھائین میں حکومت اور بعض گروپوں کے مبینہ مظالم کے سبب ہزاروں روہنگیا مسلمان محفوظ مقامات کی تلاش میں اپنے گھر چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں لیکن وہ مصیبتوں سے بچنے کی اس کوشش میں نئی مصیبتوں کاشکار ہوا ہے۔ بالخصوص کئی نوجوان مسلم لڑکیوں کو تھائی لینڈ اور ملائیشیاء میں جسم فروشی کیلئے استعمال کئے جانے کے واقعات بھی منظرعام پر آئے ہیں۔ جن میں ایک دکھی باپ عبدالقادر کی دردناک داستان بھی شامل ہے جس کی 14 سالہ لڑکی 30 جنوری 2015ء کی صبح اپنے گھر سے نکلی تھی پھر کبھی واپس نہیں ہوئی۔ اب وہ تھائی لینڈ یا ملائیشیاء کے ایک کیمپ میں ہے، جہاں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد اس کی رہائی کیلئے غریب رکشہ راں عبدالقادر سے 1500 امریکی ڈالر دینے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ وہ (عبدالقادر) یومیہ دیڑھ ڈالر کماتا ہے اور وہ اس کیلئے یہ بھاری رقم ادا نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اس نے اپنی بے بس اور لاچاری کا احساس کرتے ہوئے بردہ فرشوں سے کہا کہ وہ کوئی ایسا شخص تلاش کریں جو اس کی 14 سالہ بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اس شخص (کسی امکانی دولہے) سے یہ رقم اس کی بیٹی کو رہا کردیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہ الفاظ دیگر وہ اپنی بیٹی کو فروخت کرنے کی تجویز پیش کررہا ہے‘‘۔ وہ سواتے کے تھائے چاؤنگ گاؤں کی ایک جھونپڑی میں واقع انٹرنیٹ کیفے سے اپنی بیٹی سے بات کررہا ہے جہاں بات چیت کیلئے فی سیکنڈ10 امریکی سینٹس وصول کئے جاتے ہیں۔