مصنوعات ملکی نمائش گاہ ( جواہر بال بھون ) کی ہئیت تبدیل

حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کی تعمیر کردہ عمارت میں ان کی تصویر ہی ندارد ، عمارت میں مذہبی رسومات کی ادائیگی
حیدرآباد ۔ 25 ۔ فروری : حیدرآباد و اطراف واکناف بلکہ آندھرا پردیش کے دور دراز مقامات سے لے کر کرناٹک ، مہاراشٹرا اور ٹاملناڈو کے کچھ حصوں میں آصف جاہی حکمرانوں نے فن تعمیر کی شاہکار غیر معمولی عمارتیں تعمیر کروائیں ۔ ڈیمس بنائے ، متعدد پراجکٹس کو عملی شکل دے کر عوام کو سہولتیں بہم پہنچائیں ۔ جہاں تک شہر حیدرآباد میں آصف جاہی حکمرانوں کی جانب سے کی گئی تعمیرات کا سوال ہے ۔ درجنوں ایسی تاریخی عمارتیں ہیں جنہیں دیکھ کر ان شاہی حکمرانوں کے تعمیری ذوق ، دریا دلی ، رعایا پروری کا اندازہ ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس کے قطب شاہی اور آصف جاہی حکمرانوں کی رعایا پروری اور انکے کارناموں سے حسد رکھنے والے عناصر نے ان کی عمارتوں کی ہئیت تبدیل کرنے کی بھر پور کوشش کی یہاں تک کہ اس دور کی یادگاروں کا نام و نشان مٹا دیا گیا ۔ جہاں تک آصفجاہی دور کی تاریخی اور خوبصورت عمارتوں کا سوال ہے اسمبلی کی خوبصورت عمارت ، اس کے قریب واقع وسیع و عریض سبز و شاداب باغ عامہ ، اس کے دامن میں موجود پرشکوہ جوبلی ہال عظمت رفتہ کی یاد دلاتا ہے ۔ اس طرح حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی جانب سے 1939 میں تعمیر کردہ مصنوعات ملکی نمائش گاہ ( جو فی الوقت جواہر بال بھون کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ) عوام کو آصف جاہی حکمرانوں کے تعمیری کارناموں کی یاد دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 1846 میں تعمیر کردہ شاہی باغ عامہ کے ایک حصہ میں موجود مصنوعات ملکی نمائش گاہ کی شکل بالکل بدل دی گئی ہے ۔ راقم الحروف نے دیکھا کہ اس خوبصورت وسیع و عریض عمارت جسے حقیقت میں فن تعمیر کا مثالی نمونہ کہا جاسکتا ہے ۔ اس خوبصورت اور بلند و بالا باب الداخلہ کے اوپر آصف جاہی تاج ہے

جس میں ’ اللہ ‘ اور نیچے مصنوعات ملکی نمائش گاہ 1949 کنندہ ہے اگرچہ کسی کو یہ علامت اور تحریر مٹانے کی جرات نہیں ہوئی لیکن اس عمارت میں داخل ہوتے ہی بالکل درمیان میں ایک مورتی کی تصویر کے سامنے ایک دیا جلتا ہوا دکھائے دے گا ۔ بائیں جانب ایک ہال ہے اس میں پوجا کا ایک خصوصی کمرہ قائم کردیا گیا ۔ دائیں جانب اعلیٰ عہدہ دار کا روم ہے اس کمرہ میں بھی پوجا کا مکمل انتظام کیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اس تاریخی عمارت میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ، ان کی بیٹی اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی اور دیگر مجاہدین آزادی کے متعدد تصاویر لٹکائی گئی ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے 2000 گز مربع اراضی پر محیط تاریخی عمارت میں اسے تعمیر کرنے والے حکمران نواب میر عثمان علی خاں بہادر یا دیگر آصفجاہی حکمرانوں کی کوئی تصاویر نہیں ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ 25 جون 1966 کو مصنوعات ملکی نمائش گاہ میں آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جواہر بال بھون کا افتتاح انجام دیا ۔ اس ادارے کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر جی بھاسکر کمار ہیں ۔

انہوں نے اور عملہ کے دیگر ارکان نے بتایا کہ ا نہیں یہ تو معلوم ہے کہ نظام دکن نے یہ تاریخی عمارت تعمیر کی لیکن ان لوگوں نے کبھی حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کی تصویر نہیں دیکھی ۔ ان ملازمین کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح نواب میر محبوب علی خاں بہادر یا نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے تعمیر کردہ عمارتوں میں ان کی نشانیوں علامتوں اور یادگاروں کو مٹایا جارہا ہے ۔ واضح رہے کہ فی الوقت جواہر بال بھون میں بچوں کو پینٹنگ ، چکنی مٹی کی اشیاء سے کھلونے بنانے ، آرٹ و کرافٹ ، موسیقی ، کچی پوڈی ، بھارت ناٹیم اور کتھک جیسے کلاسیکی رقص ، کراٹے ، کیرم ، چیس کی تربیت فراہم کی جاتی ہے اس کے علاوہ طلبہ کو سائنسی علوم سے واقف کرواتے ہوئے ان میں اختراعی صلاحیتوں کو ابھارا جاتا ہے ۔ بہر حال جہاں اے پی اسٹیٹ آرکیالوجی میوزیم کا نام تبدیل کیا گیا وہیں مصنوعات ملکی نمائش گاہ کی ہئیت بھی تبدیل کردی گئی ۔ قارئین … جہاں تک اسٹیٹ آرکیالوجی میوزیم کا سوال ہے دراصل آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے بتایا جاتا ہے کہ اسے اپنی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی گڑیاں رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا ۔ اس عمارت میں قسم قسم کی گڑیاں رکھی گئی تھیں جس سے کمسن شہزادی کھیلا کرتی تھی لیکن 1930 میں بدشگونی کا اظہار کرتے ہوئے اسے حیدرآباد میوزیم میں تبدیل کردیا گیا اس وقت ڈاکٹر غلام یزدانی ڈپارٹمنٹ آف آرکیالوجی کے ڈائرکٹر تھے اور انہیں اس ڈپارٹمنٹ کا پہلا ڈائرکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ مصنوعات ملکی نمائش گاہ کی عظمت رفتہ بحال کرنے کے لیے کون آگے آتا ہے اور وہاں آصف جاہی حکمرانوں کی تصاویر لگانے کے لیے کون کوشش کرتے ہیں ۔۔