مصر مذاکرات کی ناکامی

ایسے بھی ہیں کچھ ظالم اس دور میں اے لوگو
مظلوم ہیں دعوی ہے اور ہاتھ میں خنجر ہے
مصر مذاکرات کی ناکامی
مشرق وسطی میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے عالمی طاقتوں کی کوشش بری طرح ناکام ہورہی ہیں ۔ مصر میں مذاکرات سے امیدیں پیدا ہوگئی تھیں لیکن تمام کوششوں کے باوجود اسرائیل نے اپنی خونریز کارروائیوں کو روکنے کی جانب کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ۔ مذاکرات کی ناکامی عالمی طاقتوں کیلئے بہت بڑی تشویش کا باعث ہونا چاہئے ۔ فلسطین میں معصوم عوام کو ہر روز موت کی نیند سلانے والے یہودی مملکت کو آخر اتنی کھلی جارحیت کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ عالمی امن کیلئے سنگین خطرہ ہی متصور ہوگا ۔ اسرائیل کا یہ ادعا ہے کہ جب تک غزہ میں عسکری گروپ کی جانب سے راکٹ حملے نہیں رکتے تب تک مذاکرات ناممکن ہیں ۔اسرائیل کو اس طرح کی شرط رکھنے کی اجازت دینے والی طاقتوں کو یہ غور کرنا چاہئے کہ آیا ان کی خاموشی عالمی جنگی جرائم کے مترادف تو نہیں ہے ۔ حال ہی میں سعودی عرب فرمانروا شاہ عبداللہ نے مشرق وسطی کی صورتحال کے حوالے سے اسرائیلی خونریز کارروائیوں پر عالمی طاقتوں کی خاموشی کو جنگی جرم سے تعبیر کیا تھا ۔ اس آواز کے باوجود عالمی طاقتوں پر کوئی جینبش نہیں ہوئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالم اسلام کے با اثر حکمرانوں کی بھی آواز کو سُنا ان سُنا کیا جارہا ہے ۔ مغربی ممالک کے شاہ عبداللہ کے اس بیان کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ اسرائیل کھلی جارحیت کے ساتھ فلسطینی عوام کو نشانہ بنارہا ہے ۔ مساجد ،اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں پر حماس کے جنگجووں کے روپوش مقامات بتا کر حملے کررہا ہے تو یہ انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے اس پر کوئی متفق کرنے کے باوجود اسرائیل پر شکنجہ نہیں کسا جارہا ہے تو یہ عالمی طاقتوں کی سب سے بڑی جانبداری یا بزدلی ہے انسانی حقوق کی تنظیم ایجنسی انٹرنیشنل نے بھی کہا کہ اسرائیل فوج کی طرف سے دواخانوں اور امدادی کیمپوں پر جان بوجھ کر حملے کئے جارہے ہیں ۔ اس طرح کے حملوں کی عالمی سطح پر تحقیقات کروا کر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم اسرائیل بنجامن نیتن یاہو کو جنگی جرائم کی عدالت میں کھڑا کیاجاسکتا ہے مگر امریکہ کے بشمول تمام اتحادی ملکوں نے اسرائیل کے خلاف ایک لفظ کہنے کی ہمت نہیں کی ہے یہ افسوسناک واقعہ ہے ۔ اگر اسرائیلی جارحیت کی آزادانہ تحقیقات کروائی جائے تو اس میں یہودی ملک اور اس کی قیادت کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سخت سزا کا اعلان کیا جاسکتا ہے ۔اسرائیل یا حماس پر جس طرح کی جنگ بندی کیلئے زور دیا جارہا ہے وہ سراسر حماس اور فلسطینی عوام کو کمزور کرنے کی ایک طرف کوشش ہے اس میں یہودی طاقتوں کو کھلی چھوٹ دے کر معصوم اور نہتے انسانوں کو ہی چپ رہنے کی ترغیب دینا انصاف کا گلہ گھوٹنے کے مترادف ہے ۔ 8 جولائی سے شروع کی گئی جنگ میں غزہ کے اندر اب تک 2 ہزار سے زائد انسانوں کا قتل کیا گیا ۔ معصوم بچوں کو ان کی ماوں کے گود میں ہی دم توڑتا دیکھا گیا۔ مقامی افراد اور وہاں کام کرنے والے انٹرنیشنل اداروں کے ماہرین نے اسرائیل کے تازہ حملوں کو ماضی میں کئے گئے حملوں کے برعکس خطرناک اور شدید بتایا ہے ۔ وارننگ کے بغیر حملے کر کے انسانی جانوں کو نقصان پہونچانے کی خلاف عالمی سطح پر کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی جارہی ہے ۔ ساری دنیا کی انسانیت کانپ رہی ہے اس کے باوجود ظالم کا ہاتھ پکڑنے کو کسی نے ہمت نہیں دکھائی اس کا مطلب یہی ہے کہ ساری دنیا کی بڑی طاقتیں ظالم کے ظلم پر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دے رہی ہیں ۔ دواخانوں پر حملے کرنا انسانیت کی خلاف بد ترین کارروائی ہے ۔ انسانی حقوق کی دہائی دینے والی عالمی طاقتوں نے اس ایک کارروائی پر ہی دیگر ملکوں پر ہنگامہ برپا کردیتی ہیں لیکن اسرائیل کے معاملے میں عالمی انسانی حقوق کے ادارے معنی خیز خاموشی اختیار کرچکے ہیں ۔ فلسطین میں انتقاضہ تحریک 1987 سے 1993 کے دوران اتنی اسرائیلی جارحیت نہیں دیکھی گئی جو گذشتہ چند مہینوں میں دیکھی گئی ہے ۔ اسرائیل نے اس مرتبہ منظم طریقے سے حملے کئے ہیں جس میں عام شہریوں کے مکانات کو ہدف بنایاگیا ہے بڑی تعداد میں جب ایک ہی خاندان کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں تو یہ شہری علاقوں پر کی جانے والی اندھا دھند بمباری کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کا حق دینے سے گریز کرنے والی طاقت کو آخر کس طرح ناکام بنایا جاسکتا ہے یہ سوچنا عالم اسلام کا کام ہے کیوں کر عالمی طاقتیں اپنی آنکھیں بند کرلی ہیں تو مسلم دنیا کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کے احساسات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ساری دنیا میں انسانی دل تڑپ رہے ہیں مگر حکمرانوں کے سیاہ قلوب حرکت نہیں کررہے ہیں ۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر غلاموں کی زندگی گذارنے کیلئے مجبورکرنے والی اسرائیلی طاقت کو بہر حال ناکام بنانے کیلئے فوری اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے ۔ فلسطین عوام تمام ظلم و زیادتیوں کو برداشت کرتے ہوئے بھی ثابت قدمی سے اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں تو یہ ساری دنیا کو انسان ہونے اور انسانیت کا مطلب کیا ہے یہ بتا رہے ہیں اس صبر آزما مظاہرے میں اللہ کی مدد کے ساتھ ساتھ انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے دعاوں کا بھی سہارا مل رہا ہے ۔ امید ہے کہ بہت جلد اسرائیلی طاقت اپنے انجام کو پہونچے گی۔