نہتے فلسطینوں پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں
حالیہ دنوں میں جب فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کے داخلہ پر اسرائیلی حکومت کی پابندیوں کے خلاف مظاہرے کررہے تھے جس میں متعدد فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ عین اسی وقت عالم اسلام کی سب سے باعظمت سمجھی جانے والی اسلامی مملکت کے بادشاہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اپنی رعایا اور اُمت اسلامیہ کی فلاح و بہبود اور اسلام و اہل اسلام کی سربلندی کیلئے روز و شب کی مسلسل جدوجہد سے تھک کر آرام کرنے کیلئے اپنے امراء و وزراء کے پرشکوہ جلو میں شاہانہ کروفر کے ساتھ مغرب میں کچھ وقت بتانے کیلئے روانہ ہوئے اور اپنے تمام تر ہوش و حواس میں ، قلبی سکون و اطمینان کے ساتھ ، کسی خوف و اندیشے کے بغیر اپنی حکومت و سلطنت کی باگ ڈور اپنے جواں سالہ فرزند محمد بن سلمان کے حوالے کرکے رخصت ہوئے جبکہ ہم نے اپنے قدیم اساتذہ سے سنا تھا کہ مرحوم فرمانروائے دکن اعلحضرت میرعثمان علی خان آصف جاہ سابع تختہ اُلٹ جانے کے اندیشہ سے اپنے فریضۂ حج کو ادا نہ کرسکے اس لئے سال بہ سال اپنی جانب سے سینکڑوں افراد کو حج کیلئے بھیجا کرتے تھے ۔
دوسری طرف مصر میں جبکہ فلسطینی عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف نہتے اور بے سروساماں نبرد آزما ہیں مصر کے صدر عبدالفتاح سیسی نے مشرق وسطیٰ بلکہ افریقہ کے سب سے بڑے فوجی اڈہ کاافتتاح کیا جس میں ابوظہبی ، امارات ، کویت ، سعودی عرب ، لیبیا اور بحرین کی سربرآوردہ شخصیتیں شریک ہوئیں اور اپنی اسلامی اخوت اور عربوں کی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا جس میں دوست مسلم ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں ہوں گی اور باہمی فوجی تعاون سے مزید تحقیق و ریسرچ کا کام ہوگا ۔ یہ درحقیقت حلیف مسلم ممالک کی آڈیالوجی اور سیاسی نظریہ کے خلاف کوئی پڑوسی ملک جاتا ہے تو اس کو تنبیہ کرنا ہے کہ وقت پڑنے پر اس کے خلاف فوجی طاقت و قوت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جائیگا ۔ تاہم مسلمانوں کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ یہ حلیف مسلم ممالک اپنی چیدہ چیدہ قوت کو یکجا کرکے ایک دن اسرائیل کے خلاف جرأت کا مظاہرہ کریں گے ۔ ان حکمرانوں سے کبھی ایسی توقع نہیں رکھنی چاہئے اس لئے وہ جانتے ہیں کہ وہ جتنی چاہے فوجی طاقت و قوت کو جمع کرلے اسرائیل کو تھوڑا سا بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے کیونکہ اسرائیل نیوکلیر طاقت کا حامل ملک ہے جب اس کے پڑوسی ممالک اس کے خلاف مشترکہ کارروائی کا خواب بھی دیکھیں گے تو دوسرے منٹ میں اسرائیل تمام مشرق وسطیٰ کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مسلم ممالک کے سربراہان اسرائیل کا کبھی مقابلہ کرہی نہیں سکتے البتہ ان کی رعایا اسرائیل کا مقابلہ کرسکتی ہے کیونکہ ان کے پاس اسرائیل کی فوجی طاقت و قوت سے بڑھ کر ایک عظْم قوت ہے اور وہ ایمان ہے اور عام مسلمان ہی اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے مسجد اقصیٰ کو آزاد کروائیں گے ۔ اسرائیل اپنی مکاری ، چالبازی ، درندگی اور طاقت و قوت کے باوجود ایمان والے فلسطینی مسلمانوں کی ہمت و حوصلے اور ان کی جاں نثاری کے سامنے عاجز و بے بس ہیں ۔ مخفی مبادکہ مشرق وسطیٰ میں عدم استقرار کی بنیادی وجہ اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا ہے ۔ یعنی اگر خطہ میں امن و امان اور استقرار و استحکام ہوگا تو مشرق وسطیٰ کے عرب مسلمان ہی اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر مسجد اقصیٰ کو آزاد کروالیں گے ۔ دشمن بھی عام عربوں کے اس جذبہ سے واقف ہے ۔ مسلم ممالک کے سربراہ دانستہ طورپر خطہ میں بے چینی و بے قراری کا ماحول پیدا کرکے رکھے ہیں تاکہ ان کی حکومتیں محفوظ رہیں اور اسرائیل کو نقصان نہ ہو نیز سرپرست مغربی ممالک مسلم ممالک کے حکمرانوں کے اس جذبۂ وفاداری سے حددرجۂ خوش ہیں اس لئے یمن اور مصر میں بے گناہ مسلمان مارے جارہے ہیں اور سارے مغربی ممالک خاموش ہیں۔
مسجد اقصیٰ خانۂ کعبہ کے بعد روئے زمین پر دوسرا خانۂ خدا ہے ۔ روایتوں کے مطابق مکہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے مقام سے زمین کا آغاز ہوا اور کل حشر و نشر بیت المقدس میں بپا ہوگا۔ بیت المقدس انبیاء علیھم السلام کا مرکز اور مدفن ہے ۔ اہل اسلام کیلئے مسجد اقصیٰ اس لئے اہم ہے کہ وہ ہمارا قبلۂ اول ہے اور ہم سابقہ انبیاء خصوصاً انبیاء بنی اسرائیل کے حقیقی وارث ہیں۔ یہودی تو حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیھما السلام کی زبانی ملعون قرار دیئے گئے ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے : بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ہیں ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنت بھیجی گئی ہے اس لئے کہ وہ نافرمانی اور زیادتی کیا کرتے تھے ( سورۃ المائدہ ۷۸؍۵۰) نیز نبی اکرم صلی اﷲعلیہ وآلہٖ و سلم نے مکہ مکرمہ میں اسلام کا اعلان فرمایا اور معراج شریف کے موقعہ پر آپ ﷺ کا مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمانا منجانب اﷲ تاقیامت مسجد اقصیٰ پر اہل اسلام کے حق کا اعلان ہے۔ اور اسی بیت المقدس سے آپ آسمانوں کی طرف عروج فرمائے اور عرش کے اوپر لامکاں میں قاب قوسین کے نورانی ہالے میں سر کی آنکھوں سے دیدار الٰہی سے سرفراز ہوئے ۔ علاوہ ازیں مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد بھی نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم تقریباً سولہ (۱۶) ماہ بیت المقدس کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرتے رہے ۔ بعد ازاں تحویل قبلہ کا حکم ہوا اور خانۂ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا جو عملی طورپر یہودیت اور عیسائیت دونوں کی مرکزیت کے اختتام کا اعلان ہے ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی طرح حضور پاک صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو بیت المقدس نہایت محبوب رہا ۔ ذوالاصابع نامی ایک صحابی نے استفسار کیاکہ ہم آپ کے وصال کے بعد سکونت کا مسئلہ درپیش ہو تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : بیت المقدس کو لازم کرلو ، یقینا اﷲ تعالیٰ تمہارے لئے ایسی اولاد پیدا فرمائیگا جو صبح و شام مسجد اقصیٰ کو جائیں گے ۔ (مسند احمد ، ہیشمی)
آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے دجال چالیس دن رہے گا اور ہرطرف اس کی حکومت ہوگی مگر یہ کہ وہ چار مقامات میں داخل نہیں ہوسکے گا ۔ کعبہ شریف ، مسجد نبوی ، مسجد اقصیٰ اور کوہ طور ۔ ( مسند احمد بن حنبل)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے دعا کی اے اﷲ ! ایسے فیصلہ جات کی توفیق دے جو تیرے فیصلے کے موافق ہو اور ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی کو نہ ہو اور جو اس مسجد اقصیٰ میں صرف اور صرف نماز کے لئے آئے تو اس کے گناہوں کو معاف فرما جیسا کہ وہ ابھی پیدا ہوا ہو ۔ ( ابن ماجہ ، نسائی )
پس مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا حق ہے اوراس کی زیارت کرنے اور اس میں نماز پڑھنے کی شریعت میں تلقین و ترغیب ہے ۔ اس سے وابستگی ایمان کا تقاضہ ہے اور ہرممکنہ طریقے سے اس کے تحفظ کیلئے جدوجہد کرنا ہمارا ایمانی فریضہ ہے ۔