مسلم یونیورسٹی پر ناپاک نگاہیں۔ شکیل شمسی کا مضمون

بدھ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر دروازے پر جوکچھ ہوا وہ اس با ت کا غماز ہے کہ جب کسی تنظیم کے پاس اپنی وطن پرستی اور دیش بھکتی دکھانے کچھ نہ ہوتو وہ مسلمانوں کو ملک کا غدار کہہ کر خود کووفادار ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔علی گڑھ میں کچھ شرپسند عناصر نے ایک رو ز قبل جو حرکت کی اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کچھ تنظیمیں ملک کا ماحول خراب کرنے پر پوری طرح آمادہ ہیں۔

ویسے علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی ہمیشہ سے فرقہ پرستوں کے نشانے پر رہی ہے‘ لیکن ادھر کچھ دنوں سے شر پسند عناصر ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے ہیں۔ پہلے تو انہو ں نے مسلم نام والے ایک سنگھی کی خدمات سے اس کام کے لئے حاصل کیں کہ وہ یونیورسٹی کے ذمہ داروں سے یہ مطالبہ کرکے کہ کیمپس میںآر ایس ایس کی شاکھا لگانے کی اجازت دی جائے۔

ظاہر ہے کہ سراسر ایک فتنہ پروری ہے ‘ کیونکہ آر ایس ایس کو اب یونیورسٹی میں شاکھائیں لگانے کا شوق ہورہا ہے تو اس کی شروعات بنارس کی ہندویونیورسٹی سے کرے جو وزیراعظم کا حلقہ انتخاب میں پڑتی ہے اور اگر اس سے بھی دل نہ بھرے تو بنگال کی کسی یونیورسٹی کا رخ کرے اور اگر وہاں بھی مزہ نہ ائے تو سری نگر میں واقع کشمیر یونیورسٹی میں اپنی شاکھا قائم کرے۔

اصل میں اے ایم یو کو نشانہ بنانے کی وجہہ یہی ہے کہ آر ایس ایس اور سے برداشت نہیں ہورپارہا ہے کہ مسلم لڑکے اعلی تعلیم حاصل کرکے ائی اے ایس اور ائی پی ایس کے عہدوں کو حاصل کریں۔جب شاکھا لگانے کا منصوبہ فیل ہوگیاتو جناح کی یونین ہال میں لگی تصویر کو بہانہ بناکر مسلم یونیورسٹی کے طالب علموں کو بھڑکانے کے لئے بدھ کے روز یونیورسٹی کے باب سرسید تک شر پسندوں کو پپہنچ جانے دیا گیا جس کی وجہہ سے تصادم کی نوبت آگئی اور پولیس کو لاٹھی چاج کرنا پڑا۔

اگر پرلیس نے شر پسندوں کو پہلے کہیں روک لیاہوتا تو اس قسم کی صورتحال پیدا ہی نہیں ہوتی۔ یہاں پرہم اے ایم یو کے طلباء سے عرض کرنا چاہیں گے کے ان کو اس معاملے میں جو ش وجذبات سے کام لینے کے بجائے نہایت دانش مندی سے کام لینا ہوگا۔ان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کے اس وقت پوری ملک میں اور بالخصوص یوپی میں دلتوں او راعلی ذت کے افرادکے درمیان میں زبردست کشیدگی چل رہی ہے‘ جس کو کم کرنے کے لئے کچھ عناصرہندومسلم فسادات کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایسے حالات میں مسلم یونیورسٹی کے طلباء کو دانشمندی کا مظاہرہ کرنابہت ضروری ہے۔ جہاں تک جناح کی تصویر کا معاملہ ہے تو اس کو ٹانگنے کا کوئی جواز نہیں ہے‘ کیونکہ محمد علی جناح نے ہی اس ملک کو تقسیم کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی جس کی سزا آج پورے برصغیر کے مسلمان بھگت رہے ہیں۔

محمد علی جناح کسی بھی ہندوستان کے لئے قابل احترام نہیں ہوسکتے ‘ اگران کی تصوئیر یونین یال سے ہٹادی جائے گی تو کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑے گا‘ مگر فسطائی عناصر سے یہ تو پوچھا ہی جانا چاہئے کہ جناح تو اس ملک کے دشمن تھے ان کی تصوئیر تو ہٹا دینا چاہئے لیکن بابا صاحب امبیڈکر نے تو اس ملک کی بے انتہا خدمت کی ہے آخر ان کی مورتیوں کو کیوں نقصان پہنچایا جارہا ہے؟۔

ملک کو کچھ لوگ کس طرح لے جانا چاہتے ہیں وہ سب ہم دیکھ رہے ہیں ایسے ماحول میں جوش نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ آخر ہم بتانا چاہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلاکر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی حکمت عملی ہمیشہ سے سنگھ پریوار کا ایک حصہ رہی ہے ‘ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ فرقہ پرستوں کے منصوبوں کو تمام ہندوستانی مل جل کر ناکام کریں اور اس ملک کو امن وامان کا گہواہ بنانے میں اپنا اپنا رول ادا کریں۔

سب سے اہم بات کہ ہندو واپنی کے چند غنڈوں کی حرکتوں کو ملک کے امن پسند ہندوؤں کاکام نہ سمجھا جائے اور اس حملے کے نام پر کشیدگی پھیانے والے سیاسی لیڈروں کی جھوٹی ہمدردی سے بھی ہوشیار رہا جائے