مسلم ووٹ لینے کا طریقہ

حیراں ہوں کہ کل زہر اگلتی تھیں زبانیں
کیوں آج لبوں پر ہیں محبت کے ترانے
مسلم ووٹ لینے کا طریقہ
ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی اور حال میں بنیادی فرق یہ ہیکہ کل تک سیاسی پارٹیوں کو مسلمانوں سے ہمدردی تھی اور ووٹ لینے کی لالچ تھی آج یہ لالچ کسی دوسری بڑی پارٹی کا ہتھیار بن رہی ہے، جس کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر ہی وار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی اقتدار میں مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کے احساس کے موضوع پر اقلیتی امور کے وزیر نجمہ ہبت اللہ نے اپنی حکومت کی مخالف مسلم پالیسیوں کو درست اور ماضی کی کانگریس حکومتوں کی ووٹ بینک پالیسی کو خراب قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہیکہ ہندوستانی مسلمانوں میں آج سے نہیں بلکہ 1947ء سے احساس محرومی پائی جاتی ہے۔ مسلمان خود کو یکا و تنہا محسوس کرتے آرہے ہیں۔ حکمراں طبقہ کی مسلم خاتون وزیر کو عہد مودی میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیاں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ اس قوم کی عزت اور عظمت فرقہ پرستوں کی سازشوں کے کھونٹے سے باندھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس مسلمانوں کو اپنے خوش کن وعدوں کو دلجوئی کی پالیسیوں کے پالنے میں بٹھا کر میٹھی نیند سلاتی رہی۔ اب مودی حکومت اپنا حساب کتاب طئے کرتے ہوئے مسلمانوں کو ماضی میں ڈھکیل کر حکمرانی کے فرائض سے پہلوتہی کررہی ہے۔ ہر دو صورتوں میں خسارہ مسلمانوں کا ہی ہے۔ حالات حاضرہ یعنی قومی سطح پر فرقہ پرستی کا جو طوفان امت مسلمہ کو گھیرتا جارہا ہے، اس کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیراقلیتی امور نے مسلمانوں کی بدحالی کیلئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس سے یہی نظر آتا ہیکہ سیاستدانوں کے ظلم کا کارواں 1947ء سے لیکر اب تک جاری ہے اور ہندوستانی مسلمان کتنے بے بس ہیں۔ سیکولرازم کا دامن تار تار کرنے کے بعد ہندوتوا کی پرچارک پارٹی اب مسلمانوں سے ہمدردی کے ناطے ایسے بیانات دے رہی ہے تو سیکولرازم کی دعویدار پارٹی کانگریس کو اپنی ماضی کی مسلمانوں کے حق میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لے کر اقلیتوں میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کیلئے سخت محنت کرنی پڑے گی۔ نریندر مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اندرون ملک بھی وہی چہرہ پیش کیا ہے اور بیرونی دوروں کے موقع پر بھی اس چہرہ کو نمایاں کیا ہے تو مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 1947ء سے اب تک ہندوستان پر زیادہ عرصہ کانگریس ہی حکمراں رہی ہے۔ اس نے جو جو غلطیاں کی ہیں اگر اس کو مدنظر رکھ کر نریندر مودی اپنی حکومت کو ہندوستان کے ہر طبقہ اور باشندہ کی ترقی کا ذمہ دار بناتے ہیں تو ماضی کی کانگریس حکومتوں کی جانب سے کی گئی فریب کاری کا ازالہ ہوسکے گا مگر مودی حکومت سے مسلمان ایسی توقع کرسکیں گے یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مسلمانوں کو جس ملک میں روزگار دینے سے انکار کیا جاتا ہے ہندو محلوں اور علاقوں میں رہائشی مکان دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔ ملازمتوں، تعلیم اور معاشرتی زندگی میں امتیازی سلوک کو پہلے سے زیادہ ہوا دی جاتی ہے تو پھر مودی حکومت یا ان کے کسی بھی وزیر کو مسلمانوں کیلئے یوں آنسو بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس حکمراں کا دامن مسلم کش فسادات سے داغدار ہوچکا ہے، اس سے کیا یہ توقع کی جاسکتی ہیکہ وہ اپنے دامن کے داغ دھونے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھے گا کہ اب کی بار ایسا نہیں ہوگا۔ مودی حکومت کے وزراء میں وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ بھی اب مسلمانوں کی تعریف کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں اور انہیں ہندوستانی مسلمانوں میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے تو بحیثیت وزیر داخلہ انہیں ملک کی مختلف جیلوں میں دہشت گردی کے الزامات اور جھوٹے مقدمات میں محروس مسلم نوجوانوں کی فوری رہائی کیلئے قدم اٹھانے چاہئیں۔ یہ تسلیم کیا جارہا ہیکہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت امن و سلامتی کے ساتھ رہ کر اپنے ملک کی وفادار ہے۔ دہشت گرد گروپس کے اثرات کو خود پر مسلط کرنے سے گریز کررہی ہے تو مودی حکومت کو مسلمانوں پر دہشت گردی جھوٹے الزامات کے ذریعہ توڑے گئے ظلم کے پہاڑ کا ازالہ کرنے کیلئے فوری قدم اٹھانے چاہئے۔ ان تمام خاطیوں کو سزاء ہونی چاہئے۔ جو مسلم کش فسادات کیلئے ذمہ دار ہیں کیا ایسا ممکن ہوسکے گا کہ مودی حکومت مسلمانوں کیلئے پروگرامس اور پالیسیوں کو وضع کرکے دیانتدارانہ طریقہ سے ترقیاتی اقدامات کرے گی۔ بی جے پی کے تازہ موقف سے یہی ظاہر ہوتا ہیکہ بہار کے اسمبلی انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو خوش کرنے کا وہی فرسودہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے جو ماضی میں بلکہ 1947 سے کانگریس اختیار کرتی آرہی ہے۔ بی جے پی اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے کانگریس کو برا بھلا کہہ رہی ہے تو وہ بھی مسلمانوں کے ووٹ مانگنے کا طریقہ کانگریس سے مستعار لے رہی ہے۔