مسلم ووٹروں کی طلبگار سیاسی پارٹیاں

غضنفر علی خاں
جیسے جیسے الیکشن قریب آرہے ہیں اس سے تیز رفتاری سے تمام سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے نئے شگوفے چھوڑ رہی ہیں اور مسلم ووٹ کی اہمیت کو تسلیم کررہی ہیں۔ آج ہر جماعت مسلمانوں کو بہلانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ ایسا ان چناؤ میں نہیں بلکہ ہمیشہ ہی یہ طرز عمل رہا ہے۔ یعنی ایک سیزن میں سیاسی پارٹیوں کو مسلمان یاد آتے ہیں۔ عام دنوں میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کو ایک سستی چیز سمجھنے والے یہ سیاست داں نہ تو ہندوستانی مسلمانوں کی بھلائی چاہتے ہیں اور نہ برسوں کی مسلمانوں کی موجودگی کا احساس تک انھیں نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ بی جے پی اور آر ایس ایس بھی اس دوڑ میں اپنی روش میں تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جو داغ مسلمانوں کو ان دونوں جماعتوں نے لگائے ہیں وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ اب اگر بی جے پی (بطور خاص) کومسلمانوں کے اکثریت کے بعد سب سے بڑی اقلیت کے ہونے کا اعتراف ہورہا ہے تو کہیں ان کو ڈرانے کے لئے یہ کہا جاتا ہے کہ ملک پر مسلمانوں نے قبضہ کرکے ہندوؤں کو برباد کیا ہے۔ حال ہی میں اس (غالباً گزشتہ ہفتے میں) کہ رامائن کو اُردو زبان میں ترجمہ کرکے ایک نیا ایڈیشن شائع ہوگا اور اس کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں یہ بہانہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی سیکولر ملک میں تمام مذہبی کتابوں کو شامل کئے بغیر ملک میں مذہبی رواداری کو فروغ نہیں دیا جاسکتا۔ تاریخ کی کتب بھی بدلی جارہی ہیں۔ غرض یہ کوشش میں بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد سے شدت پیدا ہوئی ہے۔ اب مذہب سے متعلق کتابوں میں ردوبدل کیا جارہا ہے۔ رامائن ایک مذہبی کتاب ہے۔ مسلمانوں کی قرآن کریم اور سکھوں، پارسیوں کی کتابیں بھی صدیوں سے چل رہی ہیں۔ اس پر بی جے پی کی حکومت نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہ چہرہ بی جے پی کا اصل چہرہ ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی عقیدہ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کا یہ اصل چہرہ ہے اب اس چیز پر طرفہ تماشہ بلکہ مسلمانوں کے ووٹ طلب کررہی ہے۔ بی جے پی اس طرح سے مسلم ووٹ نہیں حاصل کرسکتی۔ اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلم ووٹ بینک سے وعدہ کرے کہ مسلمانوں سے بی جے پی کو جو نفرت ہے وہ ختم کرے گی اور مسلم اقلیت سے یہ وعدہ بھی کرے کہ اب کبھی بھی اقلیتوں کے بارے میں ایسی غلط فہمی سے کام نہیں لے گی۔
مسلمانوں کو یہ ثابت کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ وہ محض بی جے پی کی ناراضگی ختم کرنے کے لئے اس کے کسی معاملہ میں دخل نہ دیں۔ اس کے لئے مسلمانوں میں اپنے ووٹ کے اہم ہونے کا صحیح طور پر اندازہ خود مسلمان کو کرنا پڑے گا۔ بیش قیمت ووٹ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے بشرطیکہ یہ تقسیم نہ ہو۔ ہر ریاست کے مسلمانوں کے کچھ اپنے مسائل ہیں ان کے مطابق ووٹ استعمال کریں۔ اس وقت مسلمانوں کی طرح اپنی اہمیت کو سمجھنے کی دیگر اقلیتوں کو اپنے اپنے موقف کا جائزہ لینا چاہئے۔ کیونکہ تمام اقلیتیں بی جے پی کی موجودہ مودی حکومت سے خوف کھائے ہوئے ہے۔ یہ ملک کی ایسی حکومت ہے کہ تمام اقلیتیں اس پر کوئی اعتماد نہیں کرتی۔ ضروری بات یہ ہے کہ بی جے پی کو اقتدار سے ہٹایا جائے اور سیکولر طاقتوں کو مستحکم کیا جائے جو دن بدن کمزور اور بے اثر ہوتی جارہی ہے۔ جس سیکولرازم سے ہندوستان آزادی کے بعد سے ابھی تک چل رہا ہے اسی ہندوستان کو آر ایس اور بی جے پی کی ریشہ دوانیوں کے حوالہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شاید یہ چناؤ سیکولرازم اور فرقہ پرست فورسیس کے درمیان آخری اور فیصلہ کن معرکہ آرائی ہے۔ اقلیتوں خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے پھر کوئی موقع نہ ملے اور آر ایس ایس اور بی جے پی (خدا نہ کرے) اقتدار پر طویل عرصہ تک فائز رہے کیونکہ تاریخ بے حد کوششوں کے بعد بنتی اور بگڑتی ہے۔