حکومت کو کسی کا خوف نہیں، سیاست داں مفادات کی خاطر نوجوانوں کے خون پر سیاست میں مصروف
حیدرآباد 26 اپریل (سیاست نیوز) جب قیادتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو عوامی تحریکات حکومتوں کو عوامی مطالبات کی یکسوئی کیلئے مجبور کردیتی ہیں اور عوامی تحریک کی شدت اختیار کرجانے پر سیاسی جماعتیں عوام کے آگے گھٹنے ٹیکنے لگتی ہیں۔ جس کی مثال 2012 ء میں ساؤتھ دہلی میں پیش آئے نربھیا عصمت ریزی و قتل واقعہ کے خلاف عوام کی تحریک ہے جس نے مرکزی حکومت کو مجبور کردیا کہ وہ قانون سازی کرتے ہوئے نربھیا ایکٹ روشناس کروائے۔ 16 ڈسمبر 2012 ء کو ساؤتھ دہلی میں ہوئے عصمت ریزی و قتل معاملہ میں نہ صرف دہلی بلکہ ملک بھر کے عوام متحد ہوکر جدوجہد کررہے تھے جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ تمام سیاسی جماعتیں متحدہ طور پر عصمت ریزی کے معاملہ میں قانون سازی کی حمایت کرنے لگے۔ 7 اپریل 2015 ء کو حیدرآباد کے پڑوسی ضلع میں واقع آلیر میں 5 زیردریافت مسلم نوجوانوں کا قتل کردیا گیا لیکن سیاسی جماعتیں خاموش ہیں مگر عوامی تحریکات کے سبب یہ مسئلہ اب بھی زندہ ہے۔ مذکورہ نوجوانوں کے قتل کے لئے پولیس کی جانب سے ظاہر کی جانے والی وجوہات کوئی ماننے تیار نہیں ہیں لیکن اِس کے باوجود کوئی اِن نوجوانوں کے لئے انصاف کی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا بھی گوارہ نہیں کررہا ہے جبکہ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اس ملک کی عدلیہ کا وقار داؤ پر لگ چکا ہے۔ 5 نوجوان جوکہ عدالتی تحویل میں تھے، اُن کی اندوہناک موت کے بعد بھی کسی قسم کا احتجاج نہ ہونا پولیس کے مختلف شعبوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اِن نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے حصول انصاف کے لئے سڑکوں پر جدوجہد کرنے والی تنظیموں کو جدوجہد سے دور رکھنے کی منظم سازش کی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے اختیار کردہ موقف کے خلاف عوام میں شدید برہمی کے باوجود وہ اِس کا اظہار نہیں کرپارہے ہیں چونکہ قائدین کی جانب سے اِن نوجوانوں سے دامن جھٹکنے کی راست نہیں لیکن بالواسطہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ بعض گوشوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ معاملہ کو عدالت سے رجوع کرتے ہوئے انصاف طلب کیا جانا چاہئے۔ چونکہ عدالتوں سے انصاف کی توقع اب بھی برقرار ہے۔ یہ درست اور حقیقت ہے مگر جب تک فرضی انکاؤنٹر کے معاملہ میں حکومت پر دباؤ نہ ڈالا جائے یہ بات بھی طے ہے کہ نوجوانوں کے تحفظ کیلئے اور متوفی نوجوانوں کے خاندانوں کو انصاف کے لئے کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔ نربھیا ایکٹ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ جب کوئی معاملہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرجاتا ہے تو حکومت کو عوامی دباؤ کے آگے جھکنا ہی پڑتا ہے۔ وقار، ذاکر، امجد، اظہار اور ڈاکٹر حنیف جن پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے تھے لیکن اُن کے وکلاء کا یہ دعویٰ ہے کہ اگر مقدمہ مکمل ہوجاتا تو ایسی صورت میں اُن کے ماتھے پر لگایا گیا دہشت گردی کا داغ مٹایا جاسکتا تھا لیکن پولیس کی جانب سے فرضی انکاؤنٹر میں اِن نوجوانوں کو قتل کرتے ہوئے اِس داغ کے ساتھ اُنھیں ختم کردیا گیا اور انسانی حقوق کا دم بھرنے والوں کو بھی اِس سے دور رکھنے کے لئے منظم انداز میں انھیں مسلمہ دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ عوام میں موجود برہمی کا جب اظہار ہوتا ہے تو حکومتیں دہل جاتی ہیں اور کئی معاملات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکمران وقت عوام سے معذرت خواہی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دہلی میں نربھیا واقعہ کے علاوہ گزشتہ دنوں جنتر منتر پر ایک کسان گجیندر سنگھ کی خودکشی کے واقعہ نے بھی ریاستی حکومت کو عوام کی عدالت میں لاکھڑا کیا اور خود چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے اِس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے معذرت خواہی کی جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہلی کے عوام کے شعور کے آگے حکومتیں بے بس ہیں۔ جبکہ حیدرآباد میں 5 نوجوانوں کا قتل کئے جانے کے باوجود بھی معاشرہ کی جانب سے اختیار کردہ بے اعتنائی افسوسناک ہے۔ مذہبی و سماجی تنظیمیں ممکن ہے عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے انصاف طلب کریں لیکن سیاسی جماعتوں و قائدین کا جو عمل ہونا چاہئے وہ سڑک پر عوام کو جمع کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈالیں ایسا نہ کرنے سے جو حالات پیدا ہورہے ہیں اُس کی ذمہ داری تمام تر سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ عوامی احتجاج و تحریکات کے ذریعہ ردعمل کے عدم اظہار کے سبب جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اُس سے انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کے متمنی نوجوانوں کے علاوہ مسلم نوجوان اور سیکولر ذہن کے حامل افراد خوف و سراسمیگی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں مزید اِس طرح کے واقعات اسی بنیاد پر پیش آنے لگے کہ عوامی ردعمل نہیں ہورہا ہے جس سے حکومت کو کسی کا کوئی خوف باقی نہیں ہے۔ ریاست تلنگانہ میں پیش آئے اس واقعہ کے خلاف سیاسی جماعتوں کے رول کا عوام باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے اور عوام کو اِس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ سیاستداں اپنے مفادات کی خاطر نوجوانوں کے خون پر بھی سیاست میں مصروف ہیں۔