تروپتی کے واقعہ پر انسانی حقوق تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کی للکار ، تلنگانہ حکومت کی خاموشی پر سیاسی جماعتوں کا رویہ ناقابل فہم
حیدرآباد۔/9اپریل، ( سیاست نیوز) ریاست کے حدود تبدیل ہوگئے، حکومت بدل گئی اور عہدیدار تقسیم ہوگئے ، لیکن اگر کچھ نہیں بدلا ہے تو وہ ہے مسلم نوجوانوں کے متعلق پولیس کا رویہ، اور اس رویہ پر حکومت کی پشت پناہی کے علاوہ اپوزیشن کی خاموشی پولیس کے حوصلہ میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔ 7اپریل کی صبح ریاست آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں پولیس انکاؤنٹر کے واقعات کی خبریں سامنے آئیں اور تروپتی میں 20افراد کے انکاؤنٹر کے مسئلہ پر سیاسی بھونچال پیدا ہوگیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پڑوسی ریاست تاملناڈو کی حکومت نے چیف منسٹر آندھرا پردیش مسٹر این چندرا بابو نائیڈو کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے بے قصور افراد کے قتل پر مہلوکین کے ورثاء کو ایکس گریشیا کا مطالبہ کیا اور دوسرے دن خود تاملناڈو حکومت نے اپنے شہریوں کو جو انکاؤنٹر میں ہلاک ہوگئے تھے ان کے ورثاء کو 3لاکھ روپئے ایکس گریشیا کی منظوری کا اعلان بھی کردیا۔ لیکن ریاست تلنگانہ میں ہوئی 5مسلم نوجوانوں کی موت پر نہ صرف سیاسی جماعتوں کو سانپ سونگھ گیا ہے بلکہ ان نوجوانوں کی موت کو غیر انسانی قراردینے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔ جبکہ 20اسمگلرس جنہیں آندھرا پردیش پولیس نے موت کے گھاٹ اُتارا ہے اس انکاؤنٹر کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیموں نے عدالت سے رجوع ہوتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ بھی کرڈالا، اور یہ معاملہ اندرون دو یوم سپریم کورٹ تک رسائی حاصل کرگیا۔ لیکن تلنگانہ میں جن نوجوانوں کا سفاکانہ قتل ہوا ہے اس معاملہ کی سنوائی پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ تروپتی انکاؤنٹر کی اطلاع کے ساتھ ہی آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا اور تحقیقات کا مطالبہ کیا جبکہ آندھرا پردیش میں کانگریس کا ایک بھی رکن اسمبلی نہیں ہے۔ اس طرح وائی ایس آر کانگریس نے بھی واقعہ کی مذمت کی اور تحقیقات کیلئے دباؤ ڈالنے کا اعلان کیا۔ اتنا ہی نہیں پڑوسی ریاست تاملناڈو کی سیاسی جماعتیں سڑکوں پر اُتر آئیں لیکن اس کے برعکس تلنگانہ میں قتل کئے گئے 5 نوجوانوں کیلئے صرف مسلم سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے آواز اُٹھائی جارہی ہے اور یہ آواز بھی نقار خانہ میں طوطی کی آواز کے مترادف ثابت ہورہی ہے۔ حکومت تلنگانہ کو کسی سیاسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت کی خاموشی پر اختیار کردہ رویہ ناقابل فہم ہے۔ حکومت، پولیس اور ذرائع ابلاغ کے ادارے اس واقعہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ مارے گئے نوجوان حقیقت میں بہت بڑے دہشت گرد تھے اور دہشت گردی کاجس پر لیبل لگا ہو ان کے حقوق کی اگر کوئی آواز اُٹھائے تو اس کا بھی وہی حشر ہوسکتا ہے۔ پولیس اور میڈیا ان نوجوانوں کو دہشت گرد قرار دینے میں کوئی تامل نہیں برت رہی ہے جس کی وجہ سے کوئی سیاسی جماعت ان نوجوانوں پر ہوئے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے سے گریز کررہی ہے اور صرف ایسی جماعتیں و تنظیمیں ان نوجوانوں کیلئے آواز اُٹھارہی ہیں جن کا تعلق اقلیت سے ہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے اداروں کی مدد حاصل کرتے ہوئے محکمہ پولیس میں موجود چند شاطر عہدیدار ایسی کہانیاں پیش کررہے ہیں جنہیں پڑھنے اور دیکھنے کے بعد ان نوجوانوں سے ہمدردی باقی نہیں رہ جاتی۔ وقار اور اس کے ساتھیوں پر عائد کردہ الزامات میں پولیس نے ایک بھی الزام کو ثابت نہیں کیا بلکہ ان نوجوانوں کو مارنے کے بعد بھی جو الزام عائد کئے جارہے ہیں ان الزامات کو غیر جانبدارانہ تحقیقات کی صورت میں پولیس عہدیدار ثابت کرنے سے قاصر رہیں گے۔ پولیس کی کارروائی میں 5 نوجوانوں کی موت کے بعد بھی ریاست تلنگانہ میں حکومت کی جانب سے اب تک کوئی جواب نہیں دیا جانا اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ ریاست کے حدود اور حکومت میں تبدیلی آئی ہے لیکن نظریات اب بھی وہی ہیں جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلم نوجوانوں کے تعلق سے قائم کئے گئے تھے۔ ریاست تلنگانہ میں تلنگانہ راشٹرا سمیتی کو اقتدار حاصل ہونے پر یہ سمجھا جارہا تھا کہ حکومت کی تبدیلی کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے لیکن پولیس کی اس کارروائی نے ان اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔