مسلم نوجوانوں کی گرفتاری

کچھ حادثات نے اس طرح ہم کو گھیرا ہے
کہ جیسے دن کے اُجالوں میں بھی اندھیرا ہے
مسلم نوجوانوں کی گرفتاری
پرانے شہر میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کے اچانک دھاوؤں اور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو انٹلیجنس بیورو کی دو سالہ محنت کا نتیجہ قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ حیدرآباد میں داعش کے حامی موجود ہیں جو دہشت گرد حملے کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ انٹلیجنس بیورو کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ 2014ء سے ہی یہ گروپ مخصوص علاقوں پر نظر رکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں چند نوجوان دولت اسلامیہ یا داعش کے ارکان سے رابطہ رکھتے ہیں۔ مشتبہ نوجوانوں کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی گئی ہے۔ ان کے موبائیل نمبرس فیس بک اکاونٹس اور دیگر سرگرمیوں کی قریب سے جانچ کی گئی۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے عہدیداروں کو ان مشتبہ نوجوانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں پتہ چلا کہ ان نوجوانوں نے مشتبہ کیمیائی مادوں کی بھاری مقدار خریدی ہے۔ یہ مادے یوریا اور المونیم نائیٹریٹ پاؤڈر کے علاوہ ایسڈ، ریسٹون، ہائیڈروجن پر اکسائیڈ ہوسکتے ہیں جو دھماکو اشیاء بنانے کے کام آتے ہیں۔ ان کی مشتبہ سرگرمیوں کی مزید تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ اپنے ہی شہر میں اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے بڑے پیمانہ پر دھماکے کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ این آئی اے نے ان ہی شبہات کی بنیاد پر دھاوے کئے اور کہا کہ اس کا آپریشن کامیاب ہوا ہے اور اس نے ایف آئی آر درج کرکے نوجوانوں کو پولیس تحویل میں بھی لیا گیا ہے۔ دھماکو اشیاء بنانے والے مواد کو ضبط کرلیا گیا۔ ان گرفتاریوں کے بعد جو کہانی  تیار کی گئی ہے اس کے ذریعہ شہریوں کے اندر خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی نے گرفتار شدہ نوجوانوں کی سرگرمیوں اور تیاریوں کو پیرس اور برسلس حملوں میں استعمال اور اختیار کردہ طور طریقوں سے مماثل قرار دے کر اس کہانی کو مزید تقویت دی اور مصدقہ بنانے کی کوشش کی۔ مرکز میں مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت آنے کے بعد قومی تحقیقاتی ایجنسی کی کارکردگی کا نہج اور ذمہ داری و فرض شناسی کا رخ ہی تبدیل ہوگیا۔ موجودہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے تعلق سے کئی شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ مالیگاؤں بم دھماکوں کیس میں مجرموں کے تعلق سے اسی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے سابق عہدیداروں کی تیار کردہ رپورٹ کو مسخ کرکے اپنی مرضی اور مطلب کی رپورٹ تیار کرنے کے بعد یہ شبہ یقین میں بدلنا فطری بات ہے کہ یہ ایجنسی اب حکمراں پارٹی کی آلہ کار بن گئی ہے۔ اس سلسلہ میں اپوزیشن کانگریس نے کہا کہ یہ تحقیقاتی ایجنسی آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کررہی ہے۔ این آئی اے کے موجودہ سربراہ شرد کمار کو فوری برطرف کرنے کا کانگریس نے مطالبہ کیا ہے۔ کانگریس نے وزیراعظم اور وزیرداخلہ سے بھی یہ وضاحت طلب کی ہیکہ آخر این آئی اے دہشت گرد کیسوں میں ملوث ہندو تنظیموں اور ہندوؤں کا تحفظ کرنے کی کوشش کیوں کررہی ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ افراد کا تحفظ کرنے کیلئے حکومت نے این آئی اے کو آلہ کار بنا لیا ہے اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیوں نے این آئی اے کے رول اور مودی حکومت کی سرپرستی پر سوال اٹھایا ہے تو پھر ملک کی یہ تحقیقاتی ایجنسی اور اس کی کارروائیاں مشتبہ بن جاتی ہیں۔ مرکز کی حکمراں پارٹی ملک میں جس طرح کی فضاء مکدر کرنے کی کوشش کررہی ہے اس کی شروعات حیدرآباد کے پرانے شہر سے کی گئی ہے تو یہ تشویشناک ہے اور مسلمانوں کے لئے چوکسی کا پیام دیتی ہیں۔ موجودہ این آئی اے کے بارے میں ایک تحقیقاتی ایجنسی کے سابق سربراہ وکاس نرائن رائے نے کئی شبہات ظاہر کئے ہیں۔ انہوں نے جو انکشافات کئے ہیں اس سے مودی حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور این آئی اے کی شبیہہ مسخ ہوسکتی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ کیس کی تحقیقات کرنے والے اس این آئی اے کے بارے میں سابق عہدیدار وکاس نرائن رانے نے جو ہریانہ پولیس کے سابق عہدیدار ہیں اور 2007 تا 2010ء کے درمیان ایس آئی ٹی کی قیادت کی تھی۔ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ میں ان لوگوں کو ملوث قرار دیا تھا جن کا تعلق آر ایس ایس سے ہے۔ ہندوتوا دہشت گردی کے نظریہ کو پس پردہ کرکے قومی تحقیقاتی ایجنسی داعش یا ISIS کی سرگرمیوں کے بہانے ہندوستانی مسلمانوں کو پھانسنے کی تھیوری تیار کی ہے تو یہ ایک قومی تحقیقاتی ایجنسی کی بددیانتی اور سیاسی مفاد پرستوں کے اشاروں پر کام کرنے والی آلہ کار بن جاتی ہے۔ فرقہ پرستوں نے جب ممبئی کے ہیمنت کرکے جیسے فرض شناس اور ایماندار عہدیدار کو مشکوک بنا کر اپنے مقاصد کو بروئے کار لایا تو پھر مودی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں نے اپنے بچاو کیلئے کیا تیاری کی ہے یہ اہم سوال ہے۔ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈروں نے مسلمانوں کے حق میں کونسی حکمت عملی تیار کی ہے۔ مسلمانوں کو فرقہ پرستوں کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچانے کیلئے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے۔ خود مسلمانوں کو اس بارے میں غووفکر کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اطراف و اکناف روزمرہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اسی لئے ضروری ہے تاکہ کل فرقہ پرست حکمراں طاقت کے ناپاک ہاتھ سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ ان کے نوجوانوں کی گردنوں تک نہ پہنچ پائیں۔ گجرات مسلم کش فسادات کے لئے ساری دنیا میں بدنام ہندوتوا قیادت کچھ بھی کر گذر سکتی ہے لیکن اسے ماضی اور حال میں فرق کو بھی محسوس کرنا ہوگا کیونکہ آج کے حالات کل کی طرح نہیں ہیں۔
رگھو رام راجن کے جانشین کا مسئلہ
وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے پرزور حمایت کرنے کے باوجود آر بی آئی گورنر کی حیثیت سے رگھورام راجن کی دوسری میعاد پر برقراری سے عدم دلچسپی نے قیاس آرائیوں کا محاذ کھول دیا ہے۔ ملک کی معاشی اور مالیاتی امور پر ایک ماہر معاشیات کا ہونا بے حد ضروری سمجھا جاتا ہے۔ رگھورام راجن کے جانشین کی تلاش مودی حکومت کے لئے ایک آزمائش سے کم نہیں ہوگی کیونکہ رگھورام راجن کی دوسری میعاد کے دوران مالیاتی اصلاحات اور افراط زر پر قابو پانے کے اقدامات کئے جانے کی توقع کی جارہی تھی۔ ان کی امکانی روانگی کے پیش نظر آر بی آئی کی کارکردگی کا دارومدار نئے گورنر کی صلاحیتوں پر ہوگا۔ ہندوستانی مارکٹوں کو آر بی آئی پر جس قدر اعتماد ہے اس کے پیچھے ایک ماہر مالیاتی عہدیدار کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک قابل اعتبار اور آزاد ادارہ کی حیثیت سے آر بی آئی کو ہندوستانی مالیاتی پالیسیوں کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوتا ہے۔ گورنر راجن کے جانشین کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ افراط زر پر قابو پانے کو اولین ترجیح دینے کے ساتھ دیگر معاشی امور پر اپنی صلاحیتوں کے ذریعہ توجہ دے۔ بی جے پی ایم پی سبرامنیم سوامی کی تنقیدی بیان بازی سے ناراض رگھورام راجن نے اپنی میعاد میں توسیع کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس سے مالیاتی شعبوں کے ذمہ داروں کو منفی طور پر حیرت ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر یوروپی یونین سے برطانیہ کی علحدگی جیسے واقعہ کے بعد بڑے پیمانہ پر عالمی سطح پر غیریقینی حالات پیدا ہوتے جارہے ہیں تو ہندوستان میں مالیاتی پالیسی کے فریم ورک کا احیا بھی ضروری ہے اور روپئے کی قدر کو مستحکم کرنے کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو ہی آر بی آئی گورنر کی حیثیت سے رگھورام راجن کی برقراری کیلئے پہل کرنی ہوگی تو اس سلسلہ میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت نے اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر 7 ویں پے کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری شروع کی ہے تو ایسے میں سرکاری خزانہ پر پڑنے والے زائد مالیاتی بوجھ کو کس طرح کم کرنے کی کوشش کی جائے گی یہ آر بی آئی کے نئے گورنر کی پالیسیوں پر منحصر ہوگا۔