انتہائی تعجب خیز صورت حال ہے کہ ہفتہ عشرہ میں شہر حیدرآباد میں متعدد باہمی قتل و خون کے واقعات رونما ہوئے اور وقفہ وقفہ سے قتل و خون کا سلسلہ مسلم معاشرہ میں بڑھتا جا رہا ہے۔ حیوانیت و بہیمیت کی انتہا ہے کہ ایک مسلمان نفرت و عداوت، غیظ و غضب اور جوش انتقام میں انسانیت کے سارے حدود سے تجاوز کرتا جا رہا ہے۔ اس کے پاس نہ انسانیت رہی اور نہ ہی دین اسلام کا پاس و لحاظ۔ اپنی انا، تکبر، غرور، گھمنڈ، احساس برتری، خود غرضی، مفاد پرستی اور جوش انتقام میں اندھا ہوتا جا رہا ہے اور قتل جیسے خطرناک جرم کے ارتکاب میں پس و پیش نہیں کرتا، جب کہ وہ اسلام کی تعلیمات سے واقف ہے، اللہ اور رسول کی عظمت و محبت سے آشنا ہے، اللہ تعالی کے نزدیک مؤمن کی عظمت و حرمت سے باخبر ہے، اس کو پتہ ہے کہ قتل ایک گناہ کبیرہ اور ناقابل معافی جرم ہے، اس کی سزا جہنم ہے، دنیا و آخرت میں رسوائی و نامرادی ہے، اس کے باوصف اس کے دل میں خوف خدا اور خوف آخرت باقی نہ رہا، جوابدہی کا تصور محو ہو گیا اور محاسبہ کی چنداں فکر نہ رہی۔ یہ درحقیقت موت سے قبل موت ہے، آخرت سے بے خوفی کا نتیجہ ہے، اس کو موت اور بعد الموت حساب و کتاب، حشر و نشر، جزا و سزا، جنت و دوزخ، رضائے الہی اور ناراضگی کا کچھ احساس نہیں اور دل پتھر سے زیادہ سخت ہو گیا ہے۔ مختصر مدت میں قتل و خون کے متعدد واقعات رونما ہوئے، جو مسلم معاشرہ میں آخرت سے بے خوفی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر دلالت کر رہے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس مسلمان کا خون جو اللہ کی الوہیت اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہو قطعاً حلال نہیں ہے، سوائے تین وجوہات کی بناء (۱) شادی شدہ زناکار (۲) جان کے بدلے جان کو قتل کرنا (۳) اپنے دین کو ترک کرنے والا اور جماعت سے جدا ہونے والا‘‘۔ (بخاری و مسلم)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے اشارہ کرنے سے بھی منع فرمایا ہے، مبادا یہ کہ شیطان اپنی چال چل جائے اور وہ مسلمان دوزخ کے گڑھے میں واقع ہو جائے۔ (بخاری و مسلم)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درجہ احتیاط کی تعلیم دی کہ آپﷺ نے بے نیام تلوار آپس میں ایک دوسرے کو دینے سے منع فرمایا کہ کہیں غفلت و لاپرواہی اور ہنسی و مذاق میں کسی مسلمان کو کچھ گزند نہ پہنچے اور تکلیف کا سبب بننے والا آخرت میں عذاب و گرفت کا حقدار ہو جائے۔ (ابوداؤد، ترمذی، بروایت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ)
اسلام میں ایک مسلمان کے خون کی عظمت و حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طورپر ارشاد فرمایا کہ ’’اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کردے، ارادۃً اور عمدًا قتل نہ کرے، اس پر بطور فدیہ کفارہ ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا اور مقتول کے ورثاء کو قتل کی دیت و تاوان ادا کرنا ہے‘‘۔ ذرا غور کیجئے کہ جو بالارادہ قتل کا ارتکاب کرے، آلاتِ قتل کا استعمال کرے، بے رحمی و بے مروتی سے کسی پر حملہ کرے اور اس کی جان لے لے تو یہ اقدام اللہ تعالی کی بارگاہ میں کس قدر ناپسندیدہ و مذموم ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے کھلے طورپر اعلان فرمادیا: ’’جو شخص کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر اللہ تعالی کی لعنت اور غضب ہوگا، وہ رحمت الہٰی سے دُور ہو جائے گا اور ایسے مجرم کے لئے اللہ تعالی نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۹۳)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور سوال کیا کہ ’’آپ کی کیا رائے ہے اس شخص کے بارے میں، جس نے کسی مسلمان کو عمداً قتل کیاہو؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا ’’اس کی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی اور اس کے لئے اللہ تعالی نے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔ پھر آپ نے فرمایا ’’یہ آیت دَورِ رسالت کے آخر عہد میں نازل ہوئی ہے اور اس آیت کو منسوخ کرنے والی کوئی آیت بعد میں نازل نہیں ہوئی، تاآنکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے‘‘۔
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ہر گناہ ممکن ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اس کو بخش دے، سوائے اس آدمی کے جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرتا ہو یا وہ شخص جو کفر کی حالت میں انتقال کرجاتا ہو‘‘۔ (نسائی)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت کے دن بندے سے پہلا سوال نماز سے متعلق ہوگا اور لوگوں کے مابین پہلا فیصلہ خون سے متعلق کیا جائے گا‘‘۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کوئی بندہ نہیں ہے جو اللہ تعالی سے اس حال میں ملاقات کرے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو اور اس کا دامن کسی حرام خون سے آلودہ نہ ہو، مگر یہ کہ وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوگا‘‘۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مبغوض ترین اللہ تعالیٰ کے نزدیک تین ہیں (۱) حرم میں الحاد کرنے والا (۲) اسلام میں جاہلیت کے طور طریقے کو چاہنے والا (۳) کسی انسان کا ناحق خون طلب کرنے والا تاکہ اس کو ختم کردے‘‘۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ’’جو شخص کسی مؤمن کا قتل کرے اور اپنے قتل پر خوش ہو تو اللہ سبحانہ و تعالی اس کے فرض و نوافل کسی عبادت کو قبول نہیں فرماتا‘‘۔
انسانی جان کی عظمت اللہ تعالی کے نزدیک کس قدر ہے؟ ایک جان کو ناحق ختم کرنا ساری انسانیت کو نیست و نابود کرنے کے برابر ہے اور ایک جان کی حفاظت کرنا گویا ساری انسانیت کی حفاظت ہے اور اس سے بڑھ کر وہ شخص جس کے دل میں نور ایمان ہو اس کے مقابل میں ساری دنیا ومافیھا ہیچ ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک ساری دنیا کا زوال ایک مسلمان کے قتل و خون کے مقابل میں کم تر ہے۔ ایک مسلمان کے خون کی عظمت و حرمت کعبہ مکرمہ سے زیادہ ہے۔ آخر یہ کیسی بے حسی ہے کہ ایک مسلمان جو اپنے بھائی کی جان و مال کا محافظ و پاسبان تھا، وہی بھائی آج اپنے بھائی کے خون کا پیاسا ہے اور اس کے قتل و خون پر اس کو کوئی ندامت و شرمندگی نہیں؟۔ غیر تو غیر ہیں، اپنوں کی بے حسی و سنگدلی ایک المیہ ہے۔ اللہ تعالی اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل میں اس امت کے ایک ایک فرد کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسٓ۔