مسلم دانشوروں سے راہول گاندھی کی ملاقات

تعصبات مٹے امن برقرار رہے
دیارِ ہند میں ہوں سارے ہم وطن یکرنگ

مسلم دانشوروں سے راہول گاندھی کی ملاقات
ہندوستانی جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی نشستوں کو بڑھانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں ، رائے دہندوں سے قریب ہونے کی ترکیب بناکر عمل کریں ۔ ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں اپنی ترکیب تیار کرچکی ہیں تو دوسری طرف نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں سے اپنی وابستگی کا دم بھرکر ووٹ بنک مضبوط بنانے کا دیرینہ حربہ برقرار رکھا ہے ۔ مرکز میں جب سے بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے کانگریس پارٹی نے اپنا ووٹ فیصد مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن وہ ہر انتخابات میں کمزور مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کو مضبوط ہونے کا موقع دیتے آرہی ہے ۔ سال 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل کانگریس کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت تھی مگر اس نے اپنی خامیوں پر نظر ڈالنے کے بجائے حریف پارٹیوں کو ہی طاقتورہونے کا موقع دیا ہے ۔ حال ہی میں صدر کانگریس راہول گاندھی نے سماج کے مختلف طبقات سے رجوع ہونے کے منصوبہ پر عمل کرنا شروع کیا اور اپنی رہائش گاہ پر بعض مسلم دانشوروں سے ملاقات کی ۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ ان مسلم دانشوروں نے کانگریس پارٹی کی حالیہ غلطیوں اور ہندوتوا کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ 2014 ء کے انتخابات کے بعد کانگریس نے نرم ہندوتوا کا مظاہرہ کرکے سیکولر رائے دہندوں کو خود سے دور کردیا ۔ نتیجہ میں اسے ہر ریاست میں پیچھے ہونا پڑ رہا ہے ۔ اب وہ علاقائی پارٹیوں سے دوستی کرنے پر مجبور ہوچکی ہے ۔ مسلمانوں نے کانگریس پر بھرپور اعتماد کیا تھا اس کے صلہ میں انھیں تاحال کچھ حاصل نہیں ہوا ، ہنوز یہ پارٹی مسلمانوں کو صرف اپنی بقا کے لئے قریب کرنے کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات سے ملنے کانگریس کا پروگرام دراصل بی جے پی کی سمپرک برائے سمرتھن مہم کے خطوط پر شروع کیا گیا ہے ۔ بی جے پی نے اپنی چار سالہ حکمرانی کی تکمیل پر عوام سے رجوع ہوتے ہوئے جلسہ جلوس منظم کررہی ہے ۔ بی جے پی کی سمپرک سمرتھن مہم کے تحت ملک بھر میں بی جے پی کے 4000 کارکن ، قائدین ، چیف منسٹرس ، مرکزی وزراء اور کئی پنچایتوں کے ارکان ، سماج کے ہر طبقہ کے تقریباً 1,00,000 نمائندہ شخصیتوں سے ملاقات کرنے کافیصلہ کیا ہے ۔اسی نہج پر صدر کانگریس راہول گاندھی نے بھی مسلمانوں اور دیگر طبقات کی ممتاز شخصیتوں سے ملاقات شروع کی مگر مسلمانوں کے جن نمائندہ شخصیتوں سے ملاقات کی ، انھوں نے دعویٰ کیا ہے اس سے کانگریس کی مسلمانوں کے تعلق سے داخلی خرابی دور نہیں ہوگی جب کہ راہول گاندھی نے خود اعتراف کیا کہ کانگریس پارٹی میں اندرونی خامیاں پائی جاتی ہیں اور وہ ان خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش اور مخلصانہ رویہ اختیار کریں گے ۔ ان کی اس بات سے واضح ہورہا تھا کہ وہ مبالغہ آرائی سے کام لے رہے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ راہول گاندھی جو ان دنوں اپنے فیصلہ کا سوشیل میڈیا پر ذکر کرتے ہیں مسلم دانشوروں سے ملاقات کے بارے میں ٹوئیٹر پر اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ انھوں نے اپنا اصل روپ دکھادیا کہ وہ مسلمانوں سے ملاقات کو بھی مخفی رکھ کر اپنے ہندو ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ راہول نے ان مسلم نمائندوں کے سامنے یہ تو واضح کردیا کہ وہ سماج کے تمام طبقات سے رجوع ہورہے ہیں اور ان تمام سے یکساں ایجنڈہ اختیار کررہے ہیں یعنی انھوں نے نرم ہندوتوا کا ایجنڈہ اپنالیا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں سے قریب ہونے کی کوشش ضرور کی مگر اس کا برسرعام اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر اس ملاقات کی ایک بھی تصویر اپ لوڈ کی جبکہ یہی راہول گاندھی نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ اسی دن فلم ڈائرکٹر بی اے رنجیت سے باہمی ملاقات کی تصویر لوڈ کرکے فخر کا اظہار کیا ۔ فلم ڈائرکٹر سے ملاقات کی تصویر اور بات چیت کی تفصیل سامنے لانے میں انھیں فخر محسوس ہوا لیکن مسلم دانشوروں سے ملاقات کی تصویر شائع کرنے اور ان کے ساتھ شہ نشین پر بیٹھنے سے گریز کرتے ہوئے مسلمانوں کی توہین کی ۔ ہندوستان کے 30 کروڑ آبادی والے مسلم طبقہ کے ساتھ جب ایسا سیاسی مذاق کیا جاتا ہے تو پھر اس سے ایک بار پھر یہ ثبوت ملتا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سے زیادہ کچھ نہیں سمجھا ہے ۔ مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ کانگریس اور اس کی قیادت مسلمانوں کے مسائل کے تعلق سے سنجیدہ نہیں ہے ۔ ان کے مسال حل کرنے کے بجائے وہ انھیں مزید پیچیدہ بناتے آرہی ہے ۔ آج ہندوستان پر بی جے پی کی حکومت اس لئے ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ دوہرا رویہ اختیار کیا ۔ اس نے اب بھی احتساب اور توازن کا عمل اختیار نہیں کیا تو استبدادی اور ظالمانہ حکومت ملک کے سینے پر سوار رہے گی ۔ کانگریس اور اس کے قائدین کی غلطیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ بی جے پی کو مضبوط ہونے کا موقع فراہم کرتے آرہے ہیں تو کانگریس کے لیڈر کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو دوبارہ اقتدار ملنے پر ہندوستان ، ہندو پاکستان بن جائے گا تو کوئی بی جے پی کو زعفرانی دہشت گرد قرار دے کر اسے مزید مضبوط ہونے کی راہ ہموار کررہا ہے ۔
افراط زر میں اضافہ ، پیداوار میں کمی
ریزرو بینک آف انڈیا نے جاریہ مالیاتی سال کے پہلے نصف حصہ میں افراط زر کی شرح میں 4.9-4.8 تک قائم رہنے کانشانہ مقرر کیا تھا لیکن سالانہ افراط زر کی شرح میں گزشتہ پانچ مہینوں کے مقابل جون میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔ روپیہ کی قدر میں کمی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں خاص کر 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل آر بی آئی کو شرح سود میں اضافہ کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا ۔ یکم اگسٹ کو آر بی آئی کی جانب سے پالیسی کا جائزہ لیا جاتا ہے تو اسے سخت قدم اُٹھانے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا ۔مرکز میں آر ایس ایس زیرکنٹرول بی جے پی حکومت کے دعوؤں کے باوجود افراط زر کی شرح پانچ فیصد ہوئی ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے خاص کر سی بی آئی نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ملک کی معیشت کیلئے خطرناک قرار دیا ہے ۔ دیوالیہ پن کی پالیسیاں عام آدمی کو مشکلات سے دوچار کررہی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے انتخابات سے قبل امدادی قیمتوں میں اضافہ کا فیصلہ کیا ہے اس سے سرکاری خزانہ پر بوجھ پڑے گا ۔ حکومت کو 150 بلین روپئے کی تخمینی لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس سے آنے والے مہینوں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں بھی شدید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ملک کی معیشت کی صورتحال اس طرح ابتری کا شکار رہی تو عوام کو چوکس ہوکر موجودہ مودی حکمرانی کے تعلق سے اگلا قدم اُٹھانے سے قبل محتاط ہونا ہوگا ۔