محمد ریاض احمد
وزیراعظم نریندر مودی باتیں بہت بڑی بڑی کرتے ہیں ان کے وعدے بھی بلند بانگ ہوتے ہیں ۔ حد تو یہ ہیکہ خواتین کے حق کے بارے میں بھی ان کے خیالات سن کر جان کر اور پڑھ کر ایسا لگتا ہیکہ وہ حقوق نسواں کے بہت بڑے چمپئن ہیں اور ایسے چمپئن کے جس نے اپنی ساری زندگی خواتین کے حقوق کی لڑائی میں صرف کردی اورجس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف خواتین کو بااختیار بنانا ہو ۔ لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہیکہ خود شادی کے فوری بعد اُس عورت سے دور ہوگئے جس کے ساتھ زندگی نبھانے ، خوشی و غم کا ایک ساتھ سامنا کرنے کی قسم کھائی تھی ۔ اگنی کے سات پھیرے لئے تھے ۔ آج کل مودی جی کے دل میں مسلم خواتین کے تئیں ہمدردی پیدا ہوئی ہے ۔ وہ مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کے خواباں میں انہیں طلاق ثلاثہ سے نجات دلانے کی تمنا رکھتے ہیں ۔ حال ہی میں گجرات اسمبلی انتخابات میں ایک ریالی سے خطاب کرتے ہوئے مودی جی نے اپنے مخصوص انداز میں اعلان کیا کہ وہ طلاق ثلاثہ پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور اس مسئلہ پر ان کی حکومت کا موقف واضح ہے ۔ مودی جی نے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ 56 انچ کا سینہ ٹھونک کر شرکا کو بتایا کہ طلاق ثلاثہ کا جو معاملہ عدالت میں تھا تب حکومت نے طلاق ثلاثہ پر پابند کیلئے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے اپنا موقف ظاہر کیا اُس وقت اخبارات نے لکھا تھا کہ مودی یو پی انتخابات کے باعث اس معاملہ میں خاموش رہیں گے ۔ مودی جی کا دعوی ہیکہ کچھ لوگوں نے انہیں طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر نہ بولنے کا مشورہ دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ اس کے منفی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے لیکن بار بار سب کا ساتھ سب کا وکاس کا دعوی کرنے والے مودی نے اس طرح کے مشورہ دینے والوں سے کہدیا تھا کہ وہ خاموش نہیں رہیں گے ۔ ہر چیز پر صرف انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہیں سوچا جاسکتا بلکہ یہ مسئلہ تو خواتین کے حقوق سے جڑا ہوا ہے ۔ شائد مودی جی کے یہ خیالات سن کر ہندوتوا کے حامیوں نے تالیاں بجائیں ہوں گی ۔ نعرے بلند کئے ہوں گے لیکن پوچھنے والے یہ بھی دریافت کررہے ہیں کہ مودی کو مسلم خواتین کی بہت فکر ہے لیکن ان کے دور چیف منسٹری میں گجرات میں پیش آئے مسلم کش فسادات میں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی متعدد مقامات پر اجتماعی عصمت ریزی کی گئی اس وقت انہیں مسلم خواتین اور لڑکیوں کی حالت پر رحم کیوں نہیں آیا ، کیا انسانیت کے دشمنوں فرقہ پرستوں اور بے گناہ انسانوں کے قاتلوں نے ان کی زبان پر کوئی ڈیجیٹل قفل لگادیا تھا ؟ آج انصاف پسند عوام ان سے یہ بھی استفسار کررہے ہیں کہ بار بار مسلم خواتین کے حقوق کی باتیں کرنے والے مودی نے مقامی اداروں ، بلدیات ، اسمبلی قانون ساز کونسلوں ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا انتخابات میں مسلم خواتین کیلئے کتنا کوٹہ مقرر کیا ہے ؟ تعلیم اور ملازمتوں میں مسلم خواتین کو کتنے فیصد تحفظات فراہم کئے ہیں ؟ خود گجرات فسادات کے دوران مسلم خواتین کی گود اور سہاگ اُجاڑنے والے کتنے درندوں کو ان کی حکومتوں نے کیفرکردار تک پہنچایا ؟ کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ شہید احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کو انصاف رسائی کی راہ میں وہ کون ہے جو رکاوٹیں پیدا کررہا ہے ؟ ، مسلم خواتین کی ہمدردی کا دم بھرنے والے مودی جی سے یہ بھی سوال کیا جارہا ہے کہ کیا انہوں نے اپنی خود کی اہلیہ یشودا بین سے انصاف کیا ہے ؟ وہ بیچاری 1968 میں مودی سے شادی کے بعد سے ہی ایک بیوہ کی طرح زندگی گذار رہی ہے ۔ مسلم خواتین سے ہمدردی ظاہر کرنے والے مودی جی نے کبھی یشودا بین کی خوشیوں ان کے جذبات و احساسات کی فکر کی ہے؟ کبھی یہ غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ شوہر کے بناء ایک عورت کا کیا حال ہوتا ہے ۔ یشودا بین کے بھی کچھ ارمان ، کچھ خواہشات تھیں اورہوں گی ۔ لیکن مودی جی نے ان سے راہ فرار اختیار کی آج وہ بڑھاپے میں پہنچ کر بڑی بیچارگی کی زندگی گذار رہی ہیں ۔ مودی جی کو مسلم خواتین کی فکر کرنے کی بجائے ایک غریب مسلمان مرد سے سبق لینا چاہئے جو اپنی محدود کمائی اور غربت کے باوجود اپنی بیوی کی خوشیوں ، اس کی خواہشات ، اُمنگوں و تمناؤں کا خیال رکھتا ہے اسے یہ احساس ہونے ہی نہیں دیتا کہ وہ تنہا ہے ۔ آج ہندوستان بھر کی خواتین مودی جی سے یہ سوال بھی کررہی ہیں کہ کیا ایک خاتون کو طلاق دیئے بناء شوہر کی قربت کی خواہش میں تڑپ تڑپ کر موت کی طرف بڑھانا انسانیت ہے؟ ۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ ایک شخص جس نے خود اپنی اہلیہ کا خیال نہیں رکھا اسے مسلم خواتین کے حقوق کی بات کرنے کاکیا حق ہے ۔ مودی جی کو یہ اندازہ ہوگا کہ مسلمان ہو یا ہندو اس ملک کا ہر شہری اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں یشودا بین کی طرح مسلم خواتین سے بھی کوئی ہمدردی نہیں اور طلاق ثلاثہ پر پابندی کا جو ڈرامہ رچا جارہا ہے وہ سیاسی مفادات پر مبنی ہے ۔ مودی جی اور ان کی پارٹی و حکومت کو طلاق ثلاثہ اور مسلم خواتین کی فکر کرنے کی بجائے ان لاکھوں ، کروڑوں ہندو خواتین کے بارے میں سوچنا چاہئے جنہیں ان کے شوہروں اور خاندان والوں نے در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے چھوڑ دیا ہے ۔ ہندووں میں لاکھوں نوجوان بیواوں ہیں مودی جی کو ان بیواؤںکی بھلائی کی فکر کرنی چاہئے ۔