مسلم تحفظات پر مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا بیان دل آزاری

چندر شیکھر راؤ تحفظات کے وعدہ پر قائم ’ مختلف جماعتوں سے تائید کے حصول کی کوشش۔ جناب محمد محمود علی کا بیان
حیدرآباد ۔28۔ نومبر (سیاست نیوز) ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ مسلمانوں کے 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کے وعدہ پر چیف منسٹر قائم ہیں اور وہ تحفظات پر عمل آوری یقینی بنانے کیلئے قومی سطح پر مختلف جماعتوں کی تائید حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈی ایم کے سمیت کئی علاقائی جماعتوں میں سماجی انصاف کی فراہمی کیلئے کے سی آر کی کوششوں کی ستائش کی اور نئی دہلی میں مجوزہ مہم کی تائید کا اعلان کیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے تحفظات سے متعلق مرکزی وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی کے بیان کی مذمت کی جس میں انہوں نے پسماندگی کی بنیاد پر فراہم کئے جانے والے تحفظات کو ’’لالی پاپ‘‘ قرار دیا۔ محمود علی نے کہا کہ مختار عباس نقوی کا بیان نہ صرف غیر سنجیدہ ہے بلکہ اس سے مسلمانوں سمیت دیگر پسماندہ طبقات کی دل آزاری ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر کو بحیثیت مسلمان اس طرح کی بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ مختار عباس نقوی کیا اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ ملک میں مسلمان دیگر طبقات سے زیادہ پسماندہ ہیں اور اس سلسلہ میں کئی قومی اور ریاستی کمیٹیوں نے رپورٹ پیش کی ہے۔ مسلم تحفظات کے مسئلہ پر تلنگانہ حکومت نے اسمبلی میں بل منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کیا ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے وزیراعظم نریندر مودی سے شخصی طور پر اس مسئلہ کو رجوع کیا تھا جس پر انہوں نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔ مرکزی حکومت کے کسی فیصلہ سے قبل مختار عباس نقوی کا اسطرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے واضح کردیا ہے کہ مرکز کی جانب سے کسی فیصلہ کے بعد ضرورت پڑنے پر سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر تحفظات پر عمل آوری کی جائے گی۔ محمد محمود علی نے کہا کہ ملک کی مختلف علاقائی جماعتوں اور چیف منسٹرس سے ربط قائم کرتے ہوئے سماجی مساوات کے مسئلہ کو ریاستوں کا اختیار قرار دینے کی مہم شروع کرنے کی تجویز ہے۔ اس سلسلہ میں چیف منسٹر نئی دہلی میں پروگرام منعقد کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ڈی ایم کے پارٹی نے چیف منسٹر کے اس موقف کی تائید کی ہے۔ محمود علی نے کہا کہ پسماندہ طبقات تحفظات کی فراہمی اور انہیں سماجی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کا معاملہ ریاستوں پر چھوڑ دیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ 50 فیصد سے زائد تحفظات فراہم نہ کرنے سے متعلق مختار عباس نقوی کا استدلال ناقابل قبول ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے 50 فیصد کی حد کو لازمی قرار نہیں دیا بلکہ اسے ایک تجویز کے طور پر پیش کیا ہے ۔ سپریم کو رٹ کے فیصلہ میں واضح کیا گیا کہ اگر حکومت تحفظات کو 50 فیصد سے زائد کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے معقول وجوہات پیش کرنے ہوں گے۔ تلنگانہ حکومت نے پسماندگی کی بنیاد پر مسلمانوں اور درج فہرست قبائل کے تحفظات میں اضافہ کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلہ میں وہ حق بجانب ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت کو ووٹ حاصل کرنے کیلئے کسی حربے کی ضرورت نہیں بلکہ حکومت کی خدمات کے عوض عوام ٹی آر ایس کی تائید کریںگے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ وعدوں پر عمل آوری کا ریکارڈ رکھتے ہیں اور ملک کی کسی بھی ریاست میں تلنگانہ کی طرح فلاحی اسکیمات موجود نہیں۔ پارٹی نے انتخابی منشور میں عوام سے جو وعدے کئے تھے ، اس سے کہیں زیادہ اسکیمات پر عمل کیا جارہا ہے۔ محمود علی نے کہا کہ جس طرح ٹاملناڈو میں دستوری تحفظ کے تحت 69 فیصد تحفظات پر عمل ہورہا ہے ، اسی طرح تلنگانہ کے تحفظات کو بھی دستور کے 9 ویں شیڈول میں شامل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر دوراندیش اور تجربہ کار سیاستداں ہیں ، جنہیں دستور ہند پر گہری نظر ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح تحفظات کو مرکز کی منظوری حاصل کی جاسکتی ہے۔ محمود علی نے کے سی آر کو سیکولر قائد قرار دیا اور کہا کہ تشکیل تلنگانہ کے بعد چیف منسٹر نے اقامتی اسکولس ، اوورسیز اسکالرشپ، شادی مبارک اور خود روزگار جیسی اسکیمات کا آغاز کیا ہے جس کے فوائد لاکھوں مسلم خاندانوں کو حاصل ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سچر کمیٹی اور سدھیر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان دلتوں سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ محمود علی نے کہا کہ مختار عباس نقوی کو چاہئے کہ وہ مسلم تحفظات کی تائید کریں نہ کہ اپنے بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کی دل آزاری کریں۔