مسلم تحفظات پر سیاست

یاد آگئے ہیں پھر سے انہیں آج مسلمان
ہے خوف پھر یہی کہ وہ پھر سے بھلانہ دیں
مسلم تحفظات پر سیاست
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سیاسی جماعتوں کے حربے انتہا کو پہونچ چکے ہیں۔ ہر جماعت زیادہ سے زیادہ رائے دہندوں تک رسائی حاصل کرتے ہوئے انہیں رجھانا اور ان کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ کہیں تشہیری مہم کا سہارا لیا جارہا ہے تو کہیں بلند بانگ دعوے کئے جارہے ہیں۔ کہیں عوام سے وعدے کئے جا رہے ہیں تو کہیں نعروں کی گونج ہے ۔ اس سارے عمل میں عوام گومگو کی کیفیت میں ہیں کہ کیا کیا جائے ۔ ہر جماعت کی جانب سے رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے ہر ممکنہ جدوجہد کی جا رہی ہے ۔ کانگریس پارٹی نے آج ایک اعلان کیا کہ اگر اسے اقتدار دوبارہ مل جائے تو پسماندہ مسلمانوں کیلئے تحفظات فراہم کئے جائیں گے ۔ کانگریس پارٹی نے حالانکہ پہلے بھی اپنا انتخابی منشور باضابطہ طور پر جاری کرچکی ہے لیکن اس نے کبھی بھی مسلمانوں کو تحفظات پر واضح اعلان نہیں کیا تھا ۔ آندھرا پردیش میں کانگریس نے ماضی میں مسلمانوں کو چار فیصد تحفظات کی فراہمی کا اعلامیہ جاری کیا تھا لیکن ابھی تک یہ سارا معاملہ عدالتی کشاکش کا شکار ہے ۔ جس طرح کسی تیاری کے بغیر اور جلد بازی میں اس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا اس پر مخالفین کو عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانے میں زیادہ سہولت ہوئی ۔ اب کانگریس نے ملک بھر میں جاری انتخابی عمل کے دوران کہا کہ پسماندہ مسلمانوں کو تحفظات فراہم کئے جائیں گے ۔ حالانکہ کانگریس نے بہت تاخیر سے یہ اعلان کیا ہے اور ایسے وقت میں کیا ہے جبکہ انتخابات کا عمل عروج پر پہونچ چکا ہے اور پولنگ کے چھ مراحل مکمل ہوچکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اس وقت کیا جانے والا یہ اعلان بھی قابل قبول نہیں ہے اور اس نے کانگریس کے اعلان پر تنقیدیں شروع کردی ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس پارٹی نے اپنے ڈوبتے ہوئے اقتدار کو بچانے کیلئے یہ آخری کوشش کی ہے جبکہ کانگریس اسے انتخابی یا سیاسی حربہ قرار دینے کو تیار نہیں ہے ۔ بی جے پی کا الزام ہے کہ کانگریس پارٹی اب خوشامد پسندی کی سیاست پر اتر آئی ہے اور وہ رائے دہندوں کو رجھانے کی اپنے طور پر آخری کوشش کر رہی ہے ۔ کانگریس نے تاہم اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کے عوام کے تئیں اس کی سوچ کا نتیجہ ہے ۔
یہ درست ہے کہ کانگریس نے انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی یہ اعلان کیا ہے ۔ حالانکہ اس نے باضابطہ طور پر جو انتخابی منشور جاری کیا ہے اس میں مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا ہے ۔ کانگریس نے اپنے دس سالہ دور اقتدار میں مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے مطالبہ کو یکسر نظر انداز کردیا حالانکہ اس کے پاس مسلمانوں کی حالت زار پر سچر کمیٹی کی سفارشات اور جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات بھی موجود ہیں ۔ اس کے باوجود کانگریس نے عملی طور پر مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے تعلق سے کچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ وزیر اعظم کا جو 15 نکاتی پروگرام پیش کیا گیا تھا اس میں بھی مسلم اقلیت سے انصاف نہیں کیا گیا اور وزیر اعظم کی ہدایات کا بھی پاس و لحاظ نہیں کیا گیا ۔ مسلمانوں کی سماجی ابتر ترین حالت کو دیکھتے ہوئے حکومت سے بارہا مطالبے کئے گئے کہ انہیں تحفظات فراہم کئے جانے چاہئیں تاہم حکومت نے اس تعلق سے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا گیا ۔ خود کانگریس میں شامل اقلیتی قائدین نے اس تعلق سے حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوئی موثر کوشش نہیں کی تھی ۔ دس سال کا اقتدار پورا ہونے کو ہے اور کانگریس نے اب مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کے تعلق سے زبانی جمع خرچ شروع کیا ہے ۔ یہ انتہائی تاخیر سے کیا گیا اعلان ہے اور اس تعلق سے حکومت کو مسلمانوں کو جواب دینا چاہئے اور اپنے موقف کی وضاحت کرنی چاہئے ۔ یہ تاخیر کانگریس کیلئے موثر ثابت نہیں ہوسکتی ۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کو تحفظات کی مخالفت کی ہے ۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات فراہم نہیں کئے جاسکتے ۔ یہ درست ہے لیکن اب تک ہندوستان کی تاریخ میں جتنے بھی تحفظات فراہم کئے گئے ہیں وہ صرف اور صرف مذہب کی بنیاد پر ہی فراہم کئے گئے ہیں۔ آج تک ہندوستان میں صرف مسلمان ہیں جن کو تحفظات فراہم نہیں کئے گئے ہیں۔ اس راہ میں ہر ممکنہ طریقہ اختیار کرتے ہوئے رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں۔ اب کانگریس نے صرف تجویز پیش کی ہے کہ جو مسلمان پسماندہ ہیں انہیں تحفظات فراہم کئے جانے چاہئیں ۔ کانگریس کی تجویز پر بی جے پی چراغ پا ہوگئی اورا س نے اس کے خلاف بیان بازی شروع کرتے ہوئے اسے خوشامد پسندی کی سیاست قرار دیا ہے ۔ یہ در اصل مسلمانوں کو تحفظات کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش ہے اور کوئی بھی جماعت مسلمانوں کی بہتری کیلئے سنجیدہ نہیں ہے ۔ مسلمان رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کا استعمال کرتے وقت اس حقیقت کو نظر میں رکھنا چاہئے ۔