محمد عمران اعظمی
قتل ایک انتہائی بھیانک جرم ہے۔ تاریخوں میں ہے کہ جب قابیل کی قربانی رد ہوئی اور ہابیل کی قبول ہوئی تو اس نے طیش میں آکر اپنے بھائی کو مارڈالا اور سالہا سال تک بھائی کی لاش گھسیٹتا پھرا۔ تفاسیر میں ہے کہ ’’قابیل کے ہونٹوں پر ایک سو سال تک مسکراہٹ نہیں آئی‘‘۔ قرآن کریم میں ہے کہ ’’مفلسی یا تنگی کے ڈر سے اپنی اولاد کا قتل نہ کرو‘‘۔ بیہقی نے سنن کبریٰ (۸؍۱۷) میں لکھا ہے کہ اپنے فرزند کو اس اندیشہ کے تحت مار دینا کہ وہ آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگا، کبائر میں ہے۔ چاہے آپ لاکھ تاویل کریں، لیکن فیملی پلاننگ کی ڈور اسی قتل سے ملتی ہے۔ سنن کبریٰ میں ہے کہ نقباء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جن امور پر بیعت کی، ان میں ایک شق قتل ناحق سے بچنا بھی تھا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جب محاصرہ کیا گیا تو آپ نے بڑی پُراثر تقریر کی اور کہا کہ ’’یہ لوگ مجھے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں، جب کہ مسلمان کا خون صرف تین وجہ سے جائز ہوتا ہے، ارتداد، شادی کے بعد زنا اور قتل ناحق، میں نے تو ان میں سے کوئی کام نہیں کیا‘‘۔ ایک صحیح حدیث شریف میں ہے کہ مسلم کو گالی دینا فسق و فجور ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ آدمی کو اپنے دین میں کافی گنجائش رہتی ہے، تاآنکہ وہ قتل ناحق میں ملوث نہ ہو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ ’’قتل ناحق ایسا بھنور ہے، جس سے آدمی کبھی نکل نہیں سکتا‘‘۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ ’’سب سے پہلا فیصلہ خون کے بارے میں ہوگا‘‘۔
یہ تو قتل کرنے والوں کے لئے سامانِ عبرت ہے، جو لوگ قتل کرواتے ہیں یا قتل کا پلان بناتے ہیں یا سپاری لیتے ہیں، ان کے بارے میں بھی کم وعید نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے آدھی بات (سرگوشی) کے ذریعہ بھی اگر کسی مسلمان کے قتل میں مدد پہنچائی تو قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات ہوگی تو اس کی پیشانی پر ’’اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس‘‘ لکھا رہے گا۔
قتل کو ہم ایک وقتی واردات سمجھ کر خاموش بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اگر ہم اس جرم کی سنگینی کا احساس کریں تو کئی روز تک بیویوں کے پاس نہیں جاسکتے اور لذت کام و دہن سے آشنا نہیں ہوسکتے۔ قرطبی نے اپنی تفسیر (۵؍۳۳۲) میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ ’’مؤمن کا قتل اللہ کے پاس دنیا کی تباہی سے بھی بڑا ہے‘‘۔ اس روایت سے اس جرم کے گھناؤنے پن کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بروز قیامت مقتول، قاتل کی گردن پکڑکر اللہ کے دربار میں لائے گا اور اسے جہنم رسید کرے گا۔ کئی روایات میں ہے کہ ’’بھلا قاتل کے لئے توبہ کہاں؟۔ درمنثور (۲؍۱۹۷) میں ہے کہ سعید بن میناء کہتے ہیں کہ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی نے پوچھا: ’’کیا قاتل کے لئے توبہ ہے؟‘‘۔ قسم کھاکر فرمایا کہ ’’قاتل اس وقت تک جنت میں نہ جائے گا، جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ سے نہ گزرے‘‘۔ یہ محاورہ کسی محال چیز کے لئے بولا جاتا ہے، یعنی نہ اونٹ سوئی کے ناکہ سے گزر سکتا ہے، نہ قاتل جنت میں جاسکتا ہے۔ سفین بن عینیہ کہتے ہیں کہ جب علماء سے اس بارے میں پوچھا جاتا تو وہ ’’قاتل کے لئے توبہ نہیں‘‘ کا جواب دیتے تھے۔
در منثور میں عبد بن حمید کے حوالے سے ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاتل کی توبہ کے قائل تھے۔ ایک آدمی نے آکر ان سے اس سلسلے میں سوال کیا تو کہا: ’’نہیں، قاتل کے لئے توبہ نہیں، جہنم ہے‘‘۔ بعد میں لوگ پوچھنے لگے کہ ’’حضرت! آپ تو توبہ کے قائل تھے؟‘‘۔ حضرت ابن عباس نے سمجھایا کہ ’’وہ آدمی کسی مسلمان کے خلاف بے حد غضبناک تھا، اگر میں اس کو توبہ کا فتویٰ دیتا تو اس کی ہمت بڑھ جاتی، اس لئے دل شکنی کے لئے ’’توبہ نہیں‘‘ کا فتویٰ دیا‘‘۔ بعد میں لوگوں نے تحقیق کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات صحیح نکلی۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وقتی ضرورت اور حالات کے تقاضہ کے لحاظ سے فتویٰ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
قرآن پاک میں ہے کہ ’’جو مؤمن کو عمداً قتل کرے، اس کا بدلہ دائمی جہنم ہے‘‘۔ ابومجلز فرماتے ہیں کہ یہ تو بدلہ ہے، لیکن اللہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی قاتل کی توبہ کے قائل تھے اور ’غافر الذنب وقابل التوب‘‘ والی آیت پڑھتے تھے۔ بنو اسرائیل کے اس قاتل کا قصہ بھی سب کو معلوم ہے، جس نے ۹۹ قتل کئے تھے، پھر راہب کو مار کر سو کی تعداد پوری کرلی تھی۔ یہ اللہ کی رحمت بیکراں کے تناظر میں ہے، ورنہ اکثر احادیث میں ناحق قتل و خون کی سزا دخول نار ہے۔ بیہقی نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر ایک مرد مؤمن کے قتل میں زمین و آسمان کے سارے لوگ شریک ہوں تو اللہ سب کو بھون کر رکھ دے گا‘‘۔ ابن ابی شیبہ (جو امام بخاری کے استاد ہیں) نے اپنی مصنف میں اور ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کعبہ کو دیکھ کر فرمایا: ’’اے کعبہ! تو بڑا احترام والا ہے، لیکن مسلمان تجھ سے بڑھ کر احترام والا ہے، اللہ نے اس کے مال کو، خون کو، عزت کو، اس کو اذیت دیئے جانے کو اور اس کے ساتھ بدگوئی کئے جانے کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ اگر آپ مصنف میں ’’باب فی تعظیم دم المؤمن‘‘ پڑھیں تو مسلمان کے قتل کے تصور سے ہی بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ امام شعبی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے قصہ سے (جو قرآن میں مذکور ہے) یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جو دو آدمیوں کا قتل کردے، وہ ’’جبار‘‘ (یعنی سفاک ڈکٹیٹر) بن جاتا ہے۔
بہرحال اگر مسلمان وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کسی مسلمان کا قتل کرتا ہے تو ایک بھیانک اور ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ وہ نہ صرف مسلم سماج کی بنیاد کو کھوکھلی کرتا ہے، بلکہ اپنی آخرت کا بھی ستیاناس کرتا ہے۔ اگر اس کا قتل چھپ بھی جاتا ہے تو زندگی بھر اس کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا ہے، رات کو وہ چیخ مارتا ہے، نیند اُڑجاتی ہے، ڈراؤنے خواب نظر آتے ہیں، دیوانوں کی سی کیفیت ہو جاتی ہے، کسی کام کے قابل نہیں رہتا، مردہ سے بدتر ہو جاتا ہے اور اگر اس کا قتل ظاہر ہو جاتا ہے تو دنیاوی داروگیر تو الگ، سارا سماج اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے گھر سے رشتہ قائم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
آج تیز دھار والے چاقوؤں سے حملہ کرنا روز کا معمول بن گیا ہے، لیکن اس سے مسلم آبادی کے تناسب پر کتنے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، کاش مسلم قاتل ٹولہ اس کا ادراک کرسکے!۔