مانا کہ سو گیا ہے اب انسان کا ضمیر
کرتے رہو ضمیر کو بیدار دوستو
مسلمان کا ٹھوس قدم
ملک میں انتخابات کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ تیسرے مرحلے کی پولنگ میں ریکارڈ رائے دہی کی اطلاع کے درمیان یہ خبر بھی غور طلب ہے کہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں بے گھر مسلمانوں نے بھی اپنے حق ووٹ سے استفادہ کیا۔ تقریباً 7 ماہ قبل حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی وجہ سے ہونے والا فساد اور مسلمانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے والے المناک واقعات کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ کوئی بھی حکومت مسلم شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ گجرات میں 2002 ء کے فسادات ہوں یا مابعد ملک بھر کے مختلف مقامات پر ہونے والے فسادات میں مسلمان ہی نشانہ بنائے گئے ہیں۔ ہندوستان کی جملہ آبادی کا 14 فیصد آبادی رکھنے والا مسلم طبقہ اپنی کوئی سیاسی شناخت نہیں رکھتا۔ اس لئے مختلف پارٹیاں انھیں اپنا ووٹ بینک بناکر انھیں صرف استعمال کرتی آرہی ہیں۔ پارلیمنٹ کی 543 نشستوں کے منجملہ کم از کم 100 نشستوں پر مسلمان اثرانداز ہونے کا موقف رکھتے ہیں۔ اسلئے وہ انتخابات کے وقت سیاسی پارٹیوں کے نور نظر ہوتے ہیں اور مابعد انتخابات ان پر سے نظریں ہٹ جاتی ہیں۔ جاریہ انتخابات میں بھی سیاسی پارٹیوں خاص کر بی جے پی نے اپنے مزاج میں تھوڑی تبدیلی لاکر مسلمانوں کے لئے نظر کرم کا معاملہ ڈھونڈا ہے۔ دیگر لوگوں کے ساتھ مسلمان بھی بڑے جوش و خروش سے پولنگ بوتھ پہونچ کر حق ووٹ سے استفادہ کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان کا ووٹ یقینا امیدوار کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ مگر اس کے استعمال کنندہ کے حق میں کیا حاصل ہونے والا ہے اس کا اب تک کسی نے حساب کتاب نہیں کیا ہے اور اگر کوئی حساب کتاب رکھتے بھی ہوں تو مانگنے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس کی اصل وجہ مسلم طبقہ میں عدم اتفاق و اتحاد ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں منقسم مسلم رائے دہندہ مختلف پارٹیوں کا ووٹ بینک بن کر خود کو کمزور کرچکا ہے یا اس کو منظم طریقہ سے کمزور بنادیا گیا ہے۔ ہندوستانی مسلمان ایک جذباتی قوم ہے ان پر جذبات بخوبی غالب آجاتے ہیں اور کوئی بھی ان سے مصنوعی مسکراہٹ اور دلجوئی کے ساتھ بات یا وعدہ کرتا ہے تو اس کے ہوجاتے ہیں۔ بعدازاں وہی سب سے زیادہ نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ آج ووٹ لینے والے اچانک اقتدار پر آنے یا اپوزیشن میں بیٹھنے کے بعد مسلمانوں کے لئے اغیار بن جاتے ہیں اور ایک طاقت ہوکر اقلیت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں قانون، پولیس اور دیگر عنوانات سے خوف زدہ کرکے انتخابات میں کئے گئے وعدوں سے بے خبر کردیا جاتا ہے۔ یہ بھلا دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے ووٹ لینے کی خاطر اُنھوں نے ان سے کیا وعدے کئے تھے۔ ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں تو مسلمان اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے سے قبل اپنے بچاؤ کی فکر میں دن رات ایک کردیں۔ اپنے نوجوانوں، بچوں کو جیلوں سے رہا کرانے در در کی ٹھوکریں کھائیں، اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کی فکر میں مختلف اداروں کی دیواروں سے سر ٹکرائیں۔ ان تمام واقعات اور تلخیوں کے باوجود مسلمان خود سنبھلنے اور بدلنے کی فکر نہیں کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ زندہ قومیں مشکل وقت میں یکجا اور متحد ہوجایا کرتی ہیں لیکن ہندوستان کے مسلمان زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینے میں کوتاہی اور کاہلی کیوں کررہے ہیں یہ غور طلب اور مایوس کن بات ہے۔ اس تحریر سے کسی کی تقدیر بدلے یا نہ بدلے لیکن ہوش میں آنے کے لئے سوچ کی ایک صحیح کوشش ہی کافی ہے۔ ملت کفر نے اُمت مسلمہ کے لئے جو سازشیں تیار کی ہیں اس کا نمونہ وزارت عظمیٰ کی شکل میں مودی کی شکل میں نمودار ہورہا ہے۔ اگر انتخابات کے بعد کفر کا ٹولہ اپنی ناپاک حرکتوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ روبہ عمل لانا شروع کرے گا تو مسلمانوں کے عقائد اور جذبات کو برانگیختہ کرکے جو طوفان کھڑا کردیا جائے گا وہ ایک اور المناک داستان بیان کرے گا۔ اس لئے انتخابات کے اس مرحلہ وار دور میں ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو اپنے ووٹ کے استعمال میں احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی۔ فرقہ پرستوں کو اقتدار سے روکنا اور کفریہ طاقتوں کی منظم سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے اپنے مستقبل کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ ملک کا ہر شہری اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے نئے حکمراں اور نئی پارلیمنٹ کا انتخاب نئی سوچوں، نئی خواہشات، اپنی امیدواری کے ساتھ کررہا ہے تو مسلمانوں کو بھی اپنے لئے ووٹ دینا ہے۔ مابعد آزادی مسلمانوں نے لگاتار 3 دہوں تک کانگریس کا ساتھ دیا۔ 1977 ء کے بعد جنتا پارٹی کی کوکھ سے جنم لینے والی مختلف پارٹیوں نے مختلف سیکولر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے مسلم ووٹ اپنے نام کرلئے تو ان کی ووٹ کی طاقت بکھر گئی۔ شمالی ہند کا مسلمان ہو یا جنوبی ہند کا مسلمان ان کا ووٹ سیکولر علاقائی پارٹیوں کے لئے بٹ گیا ہے اس لئے ہندوستان میں مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے 700 سے زائد فسادات کروائے گئے تاکہ مسلمان ہمیشہ دب کر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ووٹ بینک بن کر رہیں۔ لیکن اس مرتبہ کے انتخابات میں مسلمانوں کو کچھ کر دکھانا ہوگا اور دھوکے کی سیاست کو سبق سکھانا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔
الیکشن کمیشن کی کارروائی
الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے دوران دو فرقوں میں منافرت پھیلانے اور مذہبی جذبات کے حوالے سے اشتعال انگیزی کرنے کی شکایات کا نوٹ لیتے ہوئے بی جے پی کے لیڈر امیت شاہ اور سماج وادی پارٹی قائد اعظم خان کی انتخابی مہم ، جلسہ عام سے خطاب، جلسہ و جلوس پر پابندی عائد کردی ہے۔ حالیہ برسوں میں جس نوعیت کی سیاست ہورہی ہے اور جس طرز کے سیاسی قائدین اُبھر رہے ہیں، اس کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو بہت ہی پہلے ضابطہ اُصول مروج کرنے کی ضرورت تھی۔ کسی لیڈر کی اشتعال انگیزی سے پیدا ہونے والی صورتحال نہ صرف نقص امن کے لئے خطرہ بنتی ہے بلکہ جانی و مالی نقصانات کے علاوہ سرکاری مشنری کی عدم کارکردگی سے بڑی خرابیاں بھاری خسارہ کا موجب بنتی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بروقت نوٹ لیتے ہوئے دونوں قائدین کو تاکیدی اور تنبیہی طور پر یوپی کے تحت انتخابی ریالیوں اور تقاریر پر پابندی عائد کی ہے۔ اس تعلق سے عام رائے اور مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے والوں پر کسی بھی سیاسی سرگرمیوں پر تاحیات پابندی عائد کی جانی چاہئے۔ ووٹ بینک کی سیاست کو مضبوط بنانے کے لئے ایک طبقہ کو ناراض کرکے دوسرے طبقہ کی جئے جئے کار کرتے ہوئے ایک مہذب معاشرہ کی فضاء کو مکدر بنایا جاتا ہے۔ انتخابات میں سیاسی قائدین کی بدتمیزیاں اگر یوں ہی نظرانداز کردی جائیں تو الیکشن کمیشن کا وجود اور ملک کے قانون کی اہمیت بے معنی ہوجائے گی۔ نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ اگرچیکہ انتخاب نہیں لڑرہے ہیں لیکن انھیں بہت پہلے ہی انتخابی مہم میں حصہ لینے سے روکا جانا چاہئے تھا۔ اعظم خان چونکہ ایک حکمراں پارٹی کے وزیر اور امیدوار بن کر انھیں اپنے عہدہ اور طبقہ کے اقدار کا پاس و لحاظ رکھنا چاہئے تھا۔ لیکن جب ماحول کو ایک طرف سلگتا ہوا چھوڑا جاتا ہے تو دوسری جانب بھی چنگاری بھڑکنے کا اندیشہ قوی ہوجاتا ہے۔ حکومت نے بھی ایسے افراد کے خلاف سختی سے کام لینے میں اپنی ذمہ داری کو بروئے کار نہیں لایا۔ الیکشن کمیشن نے یوں تو اکھلیش یادو حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اس نے دونوں قائدین کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کیا۔ اظہار خیال کی آزادی کا مطلب کسی کی توہین یا کسی مذہب کی تذلیل نہیں ہونا چاہئے۔ الیکشن کمیشن کا اقدام ملک میں جاریہ انتخابی عمل کی تکمیل تک تمام امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک انتباہ ہے تو اُمید کی جاتی ہے کہ ماباقی انتخابی مراحل پرامن طریقہ سے گزریں گے۔