انتخابات میں ہر پارٹی سکیولر اور فرقہ پرست کے اخلاقی و غیراخلاقی گلے پھاڑتے ہوئے بیانات دے رہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی لیڈر شاذیہ علمی کے بھی اس طرح کے ایک نجی ملاقات میں ظاہر کردہ رائے کی اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ عام کی گئی تو پارٹی نے اپنی ہی امیدوار کی اس رائے سے اظہار لاتعلقی کیا۔ غازی آباد سے عام آدمی پارٹی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والی شاذیہ علمی نے حال ہی میں ممبئی میں مسلم ارکان کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ سکیولر رائے دہندہ کی حیثیت سے اب تک ووٹ دیتے آئے ہیں
لیکن اس مرتبہ انہیں ایک مسلم فرقہ پرست رائے دہندہ بن کر ووٹ دینا چاہئے۔ اس رائے کے پیچھے کیا منطق پوشیدہ ہے، یہ 79 سیکنڈ کی اس ویڈیو کلپ سے غیرواضح ہے مگر شاذیہ علمی پر اپنے بیان کے ذریعہ ان فرقہ پرست پارٹیوں کی صف میں خود کو شامل کرلینے کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کے برعکس اپنی پارٹی لیڈر کے بیان کی ہرگز مدافعت نہیں کی بلکہ بی جے پی کے بعض قائدین نے امیت شاہ، گری راج سنگھ اور دیگر کے بیانات کی مدافعت کی تھی۔ عام آدمی پارٹی کو خالص ہندوستانی عوام کی نمائندہ جماعت بناکر پیش کیا جارہا ہے تو ایسے میں مسلمانوں کو سکیولر کردار سے فرقہ پرست کردار میں تبدیل ہوجانے کا مشورہ اس تناظر میں غور طلب ہے کہ فرقہ پرست طاقتیں پوری بے شرمی کے ساتھ قومی رائے دہی کے فیصد پر حاوی ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے شاذیہ علمی کے بیان کی ویڈیو کلپ کی تصدیق کئے بغیر ہی یا اس کے بیان کے پس منظر کا جائزہ لئے بغیر ہی شاذیہ علمی کو ہدایت دی کہ اس طرح کے بیانات سے گریز کریں اور پارٹی میں اس طرح کی ذہنیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
دراصل مسلمانوں نے اپنے سکیولر مزاج کے ذریعہ اب تک کانگریس کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا ہے لیکن اس کے عوض کانگریس نے انہیں کچھ نہیں دیا لہذا مسلمانوں کو اس مرتبہ اپنے مفادات کی روشنی میں یہ محاسبہ کرنا ضروری ہے کہ انہیں آنے والی فرقہ پرست حکومت کو روکنے کے لئے کیا قدم اٹھانا چاہئے۔ فرقہ پرست سیاست کی کوئی بھی تائید نہیں کرسکتا۔ عام آدمی پارٹی میں تمام ہندوستانیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے منشور کے ساتھ انتخابی میدان میں ہے تو مسلمانوں کے سکیولر ووٹوں کی تقسیم کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں ان کے ووٹ کی اہمیت کا احساس پیدا کیا جائے۔ یہ احساس پیدا کرنے کے لئے کوئی بھی جملے اور الفاظ استعمال کئے جاسکتے تھے لیکن شاذیہ علمی نے یہاں فرقہ پرستی کا جملہ استعمال کرکے تنقیدوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں کو ہر انتخابات میں ایک گوشہ ڈراتا ہے تو دوسرا گوشہ انہیں دلاسہ دے کر ان کے دونوں پر ہاتھ صاف کرنا ہے۔ اس تناظر میں یہ ریمارک بھی غور طلب ہے کہ ’’ڈریں بھی ہم اور جتائیں بھی ہم، لیکن ملائی کھائی کوئی اور‘‘۔ لیڈر مسلمانوں کو اس مرتبہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے انتخابات کا مقابلہ اور ووٹ ڈالنے کا جذبہ اپنی کامیابی کے لئے ہونا چاہئے۔ اگرچیکہ شاذیہ علمی کے بیان کو مسلمانوں کو فرقہ پرست ہونے کی ترغیب کی تعریف میں نہیں دیکھا جانا چاہئے
لیکن مخالفین کو اس سکیولر اور فرقہ پرستی کے ملے جلے انتخابی ماحول میں اپنا کو تو سیدھا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اس سوچ کی تاریکی میں یہ لوگ کیسٹ چلا رہے ہیں۔ ان کی تڑپ کا مشاہدہ کیا جائے تو حقیقی محبت تو لازماً ’’کرسی‘‘ کی ہی سامنے آتی ہے اور یہ ہر طاقتور لیڈر کی بنیادی محبت ہے۔ بی جے پی سمجھتی ہے کہ اس کا لیڈر طاقتور ہے۔ کانگریس کو گمان ہے کہ اسے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقتدار مل جائے گا۔ اگر اقتدار کا خواب دیکھنے والے منّے کو ایک لمحے کے لئے کسی بیان سے جیسا کہ شاذیہ علمی کا بیان ہے۔ پروپگنڈہ کا موقع مل جائے تو وہ آسمان سر پر اٹھالے گا لہذا عام آدمی پارٹی بھی اس ایک بیان پر ہی پارٹی کی رکن کی غلطی پر وضاحتی بیان کے لئے دوڑنے لگتی ہے تو آگے چل کر وہ اس طرح کے سو امتحان کس طرح پار کرے گی۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کو ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی نے تمام حدیں پھلانگ لی ہیں۔ دوسری طرف کانگریس قائدین نے اپنی تقاریر میں دعوؤں کے ایسے بلند و بالا مینار قائم کئے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹوں پر ان کا حق متصور کیا جارہا ہے،
لیکن ان پارٹیوں اور ان کے قائدین کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عوام بھی غالباً ’’خالی الذہن نہیں ہیں۔ چند گمراہ لوگ ہی فساد برپا کرتے ہیں اور اس سے ان کی دُکان چلتی ہے۔ عام آدمی پارٹی کو ان انتخابات میں اپنے لیڈروں کے ذریعہ اقوال زرین کی کتاب تو مرتبہ کرنا نہیں ہے، اسے بھی دیگر پارٹیوں کی طرح عوام کے ووٹ ہی چاہئے۔ اس لئے ہندوستانی عوام کے ووٹوں کو سکیولر اور فرقہ پرستوں کے خانوں میں تقسیم کرنا بے جھول سے کوشش ہے۔ رائے دہندوں کو تو معلوم ہے کہ عام انتخابات میں پارٹیاں اور ان کے قائدین جو وعدے کرتے ہیں، انہیں ان وعدوں کی لاشوں پر آئندہ پانچ سال تک اپنے آنسو بہانا پڑتا ہے، لیکن اب یہ دعوؤں کی لاشیں سڑ چکی ہیں اور ان سے تعفن اُٹھ رہا ہے تو ضروری ہے کہ اس مرتبہ عوام اپنے ووٹ کا اسپرے چھڑک کر اس گندگی کو دُور کردیں۔