مسلمان صبر کا مظاہرہ کریں

اس میں پوشیدہ سیاست کا بھرم ہوتا ہے
آج دنیا میں دکھاوے کا کرم ہوتا ہے
مسلمان صبر کا مظاہرہ کریں
ملک میں عام انتخابات کا نصف مرحلہ گذر چکا ہے۔ رائے دہندوں کی بڑی تعداد نے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں مگر جو خبریں پھیلائی جارہی ہیں اس کے مطابق بی جے پی کو تقویت ملنے کی اطلاع ہے۔ لوک سبھا کی 543 نشستوں کے منجملہ 232 نشستوں کے لئے ووٹ ڈالے جاچکے ہیں۔ مسلمانوں نے بھی ان انتخابات میں اپنے حق ووٹ سے استفادہ کیا ہے۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کے لئے کوشاں طاقتیں ایک سیاسی گروپ کو کامیاب بنانے کی زبردست کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کے برعکس افسوسناک پہلو یہ ہیکہ مسلم طبقہ کے ارکان نے اپنا کوئی مضبوط گروپ نہیں بنایا۔ دنیا کے سب سے بڑے عظیم تر انتخابات میں سیکولر پارٹیوں کی کامیابی کو یقینی بنانے کی سمت سنجیدہ کوشش نہ ہوں تو پھر مسلمانوں پر ظالم حکمراں کو مسلط ہوتا دیکھا جائے گا۔ اس ظالم حکمراں کے حوالے سے سیکولر پارٹیاں ایک طرح کا نفسیاتی خوف بھی پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہیں مگر مسلمانوں کو اس نفسیاتی خوف کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کامل ایمان ہیکہ ان کے حق میں جو ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کی مصلحت کے مطابق ہوتا ہے اور یہی مسلمان ہر مصیبت میں صبر کا مظاہرہ کرتا ہے تو ہر خوشی و راحت میں سجدہ شکر بجا لاتا ہے اور آزمائش کی گھڑی میں مسلمان کے صبر ہی کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ حکمراں کانگریس پارٹی بھی فرقہ پرستوں خاص کر زعفرانی سنگھ پریوار اپوزیشن کے خلاف سیکولر بنیادوں کو مضبوط کرنے میں کوشاں ہے لیکن اس کی ماضی کی فاش غلطیوں کی وجہ سے اسے رائے دہندوں کی ہمدردی سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ ہندوستان میں 130 کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی میں 30 کروڑ مسلمان ہیں اور اب یہ تعداد ایک مضبوط فیصلہ کرنے کیلئے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے مگر تشویشناک بات یہ ہیکہ مسلمانوں کو یکجا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے فرقہ پرستوں کے ناپاک منصوبے کامیاب ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں آئے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو نہ صرف مسلمانوں کو فکرمند اور غمگین بناتا ہے بلکہ منزل کی متلاشی ان کی سوچ بھی متزلزل ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر ملک میں دہشت گرد حملوں کے بعد ہماری نوجوان نسل کو دبوچ لینے والے قانون اور ناانصافیوں کے جال نے پورے طبقہ کو متفکر بنادیتا ہے۔ مسلمان اپنے وطن کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ حب الوطنی کے شاندار مظاہروں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں پھر بھی سنگھ پریوار اور نفرت کے پجاریوں کی سازشوں کا جال تیار کرنے والے انہیں پھنسا کر مضبوط ارادوں کو کمزور کرتے ہیں۔ بدنام ہونے کے خوف سے مسلم نوجوان کی ہمت جواب دینے لگتی ہے۔ ایسے میں ان کا بھرپور قانونی، سماجی اور مالی طور پر دفاع کرنے کے لئے ہمارے پاس طاقتور گروپ نہیں ہیں جو کچھ گروپ ہیں اپنی بساط کے مطابق کام کرتے ہیں ان کی کوشش سامنے والے دشمن کے مقابل کمزور ہوتی ہیں یا کمزور بنائی جاتی ہیں۔ جس ملک میں ایک بڑی اقلیت کو دہشت گردی کرنے، ظلم و ناانصافی کے واقعات کو عام کرنے سے ذہنوں میں مایوسی کے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ گجرات فسادات کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کا امیج مسخ ہوچکا ہے۔ ایک ظالم حکمراں کو اپنے سامنے قومی باگ ڈور سنبھالنے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر 12 سال قبل کی ہولناکیاں اور فسادات کے ننگے ناچ کے مناظر نمودار ہوتے ہیں مگر مسلمانوں کو اس عارضی طاقت کے سامنے بے بسی محسوس کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ اس سچائی کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ’’مسلمان کسی بھی مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘ بلکہ ہر مصیبت کا سامنا پوری بہادری کے ساتھ کرتا ہے۔ عام انتخابات میں مسلمانوں کو اپنی ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں ایک نئی مثال قائم کرنا ہے۔ اس کے سامنے اگر ملک کے اقدار اور سیکولر کردار کی سیاست نہ بھی ہو تو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہم اپنے اقدار اور سیکولر کردار کو محفوظ رکھیں تو بدی کی طاقتیں ایک نہ ایک دن پسپا ہوں گی۔ ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوںکے خلاف زمانہ قیامت کی چالیں چلتا رہا۔ آسمان رنگ بدلتا رہا لیکن مسلمانوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ گذشتہ 60 سال کی ناانصافیوں کے باوجود مسلمان اپنے دم پر ملک کی جملہ آبادی کا 15 فیصد حصہ بن کر ایک مضبوط ووٹ کی طاقت بن چکے ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں پارلیمنٹ کی 100 نشستوں پر اپنی مضبوط گرفت رکھنے والی اقلیت کو اگر فیصلہ سازی میں متحدہ کردار ادا کرنے کا رول مل رہا ہے تو اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ ہندوستان کی ایک تاریخ ہے وہ جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں۔ مسلمانوں کی حکمرانی انصاف پروری کی داستانیں موجود ہیں۔ ملک کی ایک تاریخ یہ بھی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے بنتی اور سانچوں میں ڈھلتی ہے۔ اس تاریخ کو مسلمان اپنے ووٹ کے فیصلے سے رقم کرسکتے ہیں جس میں گجرات فسادات کی المناک داستانیں بھی ہیں۔ مظفرنگر آسام کے فسادات بھی ہیں۔ جو حکمراں ملک کی قیادت کا حلف اٹھانے والا ہے۔ اس کو بھی معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی ماضی کی تاریخ کیا تھی اور آج کی تاریخ کو کس طرز پر رقم کرنی ہے لہٰذا مسلمانوں کو کسی خوف کے بغیر پراعتماد اور اندر سے مطمئن ہوکر اپنی سماجی، قومی ذمہ داری کو انجام دینا ہے۔

دستوری ادارہ کی جانبداری

سیاستدانوں نے اپنی ناکامیوں سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ہی للکارا جارہا ہے کہ اس نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان پر پابندیاں لگائی ہیں یا نوٹس جاری کی ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ نے ووٹ کے حصول کے لئے بلند شہر میں سرکاری اسکول کے ٹیچرس کو ووٹ دینے پر زور دیا۔ ووٹ نہ دینے پر کارروائی کرنے کی دھمکی دی۔ اس طرح کی دھمکی مہاراشٹرا میں این سی پی لیڈر اجیت پور نے بھی اس موضع کے رائے دہندوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر انہوں نے شردپوار کی دختر سپریا سلوے کو ووٹ نہیں دیا تو انہیں پینے کا پانی فراہم نہیں کیا جائے گا۔ انتخابی ناکامی کا خوف سیاستدانوں کو اس قدر مایوس کردیتا ہے کہ وہ راست دھمکیوں پر اتر آتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان دونوں قائدین کے خلاف کارروائی کا قدم اٹھایا ہے۔ سیاستدانوں کی بیان بازی کا یہی حال رہا تو انتخابات میں نتیجہ کیا نکلے گا یہ بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کا جمہوری مزاج ایک پروقار نتیجہ سے محروم ہوجائے گا۔ الیکشن کمیشن ان جوشیلے قائدین کی زباں بندی کرنے کیلئے موجود ہے مگر اس پر بھی جانبداری کا الزام ہے۔ نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ پر عائد کردہ پابندی ہٹالی گئی اور سماج وادی پارٹی لیڈر محمد اعظم خاں پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ اگرچیکہ دونوں قائدین پر یکساں نفرت انگیز مہم چلانے کا الزام تھا۔ یہ المیہ ہیکہ دستوری اداروں کو بھی سیاسی طرفداری کی چادر میں لپیٹا جارہا ہے۔