مسلمان تعصب برتنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟

ایرٹیل کے مسلم ایکزیکٹیو کے مسئلہ پر عمر عبداللہ کا اقدام مثالی، ملک کے مسلمانوں میں اجتماعیت کا فقدان افسوسناک
حیدرآباد 24 جون (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان میں سرکاری سطح پر مسلمانوں کی آبادی 17 کروڑ بتائی جاتی ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر ایک محتاط اندازہ کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 25 تا 30 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان سرزمین ہند میں ہی آباد ہیں۔ 1.30 ارب آبادی کے حامل ہمارے اس ملک میں اس قدر کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان اجتماعی یا مشترکہ طور پر کسی بھی شعبہ میں اثرانداز ہونے یا اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں ناکام رہے۔ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے علاوہ سرکاری محکمہ جات، خانگی کمپنیوں خاص کر مواصلاتی کمپنیوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا جاتا ہے تو مسلمان اپنے سکھ بھائیوں کی طرح اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ ان قائدین و رہنماؤں پر بھروسہ کر بیٹھتے ہیں جو مسلمانوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں اپنا ضمیر فروخت کر بیٹھتے ہیں جس کے نتیجہ میں مسلمان اجتماعی طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلا نہیں پاتے نتیجہ میں ہر طریقہ سے ان کا استحصال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر حال ہی میں مواصلاتی کمپنی ایرٹیل نے ایک ہندو خاتون پوجا سنگھ (ہوسکتا ہے اس فرضی نام کے ذریعہ فرقہ پرستوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلنے کی کوشش کی ہو) کے اعتراض پر ایک مسلم ایکزیکٹیو کے بجائے ایک غیر مسلم ایکزیکٹیو کو اس خاتون کے یہاں بھیجا پتہ نہیں اس خاتون کو مسلم نوجوان پسند نہیں حالانکہ فرقہ پرستوں نے سارے ملک میں یہ اعلان کر رکھا ہے کہ غیر مسلم لڑکیاں مسلم لڑکوں کے عشق میں بڑی تیزی سے گرفتار ہورہی ہیں۔ بہرحال مذہب کے نام پر اعتراض کرنے والی پوجا سنگھ کی درخواست پر ایرٹیل نے ایک مسلم ایکزیکٹیو شعیب کی جگہ گگن جودھ نامی ہندو ایکزیکٹیو کو پوجا سنگھ کی شکایت کی یکسوئی کے لئے روانہ کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ وہ بھی مذہب اور ذات پات کے نام پر تعصب کی بیماری میں مبتلا ہے۔ اگر ایسا واقعہ کسی سکھ نوجوان کے ساتھ پیش آتا تو سارے سکھ ایرٹیل کا بائیکاٹ کردیتے لیکن ہم بے حس مسلمانوں نے تمام دستوری حقوق رکھنے کے باوجود ایرٹیل کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ہم پر خوف و دہشت کمزوری اور انتشار چھایا رہا۔ ایک ٹی وی چیانل نے اس بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے ایرٹیل اور فرقہ پرستی کے گٹھ جوڑ کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ یوں بتایا کہ وہ ٹیلی کام کمپنیوں کی قطار میں خود کو سب سے صحیح بتانے والی ایرٹیل مذہبی امتیاز کو لے کر تنازعہ میں پھنس گئی ہے۔ سارا تنازعہ شروع ہوا تھا پوجا سنگھ نامی کسٹمر کے اُس ٹوئیٹ سے جس نے ایرٹیل ڈیجیٹل ٹی وی کنکشن میں گڑ بڑ کی شکایت کی تھی۔ پوجا کی شکایت پر شعیب نامی کسٹمر ایکزیکٹیو نے شکایت یا مسئلہ سلجھانے کا بھروسہ دیا جس کے جواب میں پوجا نے اظہار تشکر کے بجائے زہرافشانی کرتے ہوئے کہا ’’پیارے شعیب چونکہ تم ایک مسلم ہو اور مجھے مسلمانوں کے کام کاج کے طریقہ کار پر بھروسہ نہیں ہے‘‘۔ اس نے مزید لکھا ’’ایرٹیل آپ سے درخواست ہے کہ کسی ہندو ایکزیکٹیو کو ہی بھیجے، پوجا کی اس ٹوئیٹ پر تنقید کرنے کے بجائے ایرٹیل نے شعیب کی جگہ گگن جودھ کو بھیجنے کا بھروسہ دے دیا۔ ایرٹیل کے اس قدم پر ٹوئٹر پر گھمسان شروع ہوگیا اور کئی اہم شخصیتیں ایرٹیل کے خلاف میدان میں کود پڑیں۔ جموں و کشمیر کے سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کیا ’’میں نے پوری بات چیت پڑھی ہے میں انتہا پسندی پھیلانے والی کمپنی کو آگے سے ایک بھی پیسہ نہیں دوں گا۔ میں اپنا نمبر دوسرے سرویس پرووائیڈر میں پورٹ کرواکر اس کی شروعات کررہا ہوں۔ میں اپنا DTH اور براڈ بیانڈ بھی کینسل کررہا ہوں‘‘۔ اس تنازعہ میں سوارا بھاسکر جیسی اداکارہ بھی کود پڑی۔ معاملہ طول پکڑتا دیکھ کر آخرکار ایرٹیل کو وضاحت کرنی پڑی ایرٹیل نے ٹوئیٹ کیا کہ پیاری پوجا ہم کسٹمر، ارکان عملہ اور شراکت داروں کے ساتھ ذات یا دھرم (مذہب) کے نام پر بھید بھاؤ نہیں کرتے۔ ہم آپ سے بھی کہتے ہیں کہ اس طرح کی بحث نہ کریں اگر کوئی ایک سرویس کے لئے ہم سے ربط پیدا کرتے ہیں تو جو ایکزیکٹیو دستیاب ہوتے ہیں انھیں بھیجتے ہیں۔ بہرحال اس وضاحت کے باوجود ایرٹیل کی شبیہ کافی متاثر ہوئی۔