مسلمان اور معاشرہ

حیدرآباد کے مسلم معاشرہ میں بعض گوشوں کا ذہن آیا فالج زدہ ہوچکا ہے ۔ دینی ، علمی ، سماجی سطح پر ملنے والی ہدایتوں و مشوروں کو نظر انداز کر کے شادیوں میں بے جا مصارف کے بعد اب شادی خانوں میں عریاں رقص و سرور کی محفلیں سجائی جارہی ہیں ۔ اس طرح کی محفلوں کی زینت بننے والی قیادت و سیاسی طاقت کا منحوس سایہ مسلمانوں کو آئے دن عریاں ماحول میں گھسیٹتا رہے گا ؟ شہر کے ایک علاقہ میں ولیمہ تقریب میں نیم عریاں رقص اور اس دعوت میں سیاستدانوں کی موجودگی کے بارے میں پولیس نے جو موقف اختیار کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طاقت و دولت کے آگے قانون کے رکھوالے بھی رقصاں ہوتے ہیں ۔ پولیس کا ادعا ہے کہ جب ولیمہ تقریب میں عریاں ڈانس شروع ہوا تو اس وقت سیاستداں موجود نہیں تھے صرف چندایک مسخرے نوجوان دکھائی دئیے ۔ شہریوں نے پولیس کے بیان میں سیاسی دباؤ کی جھلک دیکھی ۔ بظاہر پولیس نے دفعہ 294 ( عریاں حرکتیں اور گانے ) اور 188 ( احکام کی خلاف ورزی ) کے تحت کیس درج رجسٹر تو کیا ہے اور ماباقی کارروائی ہوتے رہے گی ۔ مگر اصل مسئلہ مسلمانوں میں فروغ پارہی خرابیوں سے متعلق ہے ۔ حیدرآباد کے چند مسلمانوں کی دانستہ یا نادانستہ حرکتوں نے خراب مثال بنادی ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر میں مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ خود حیدرآباد کے چندرائن گٹہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو کرناٹک میں ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا ۔ اس علاقہ میں مسلمانوں کا ایک گروپ اپنے اطراف کے مسائل ، غموں ، پریشانیوں ، حالات کی ستم ظریفوں سے بے نیاز رقص و سرور میں محو ہوتا ہے تو یہ ایک سانحہ و المیہ ہے ۔ شادیوں میں بے جا رسومات ، غیر ضروری عوامل اور کھانے پینے میں لوازمات کو ترک کرنے کی شعور بیداری مہم کے باوجود معاشرہ سے یہ برائی ختم نہیں ہورہی ہے تو یوں سمجھ لیجئے کہ آنے والا کل اس سے زیادہ بھیانک ثابت ہوسکتا ہے ۔ مسلم دشمن طاقتوں کے سامنے خود کو ہر لحاظ سے مضبوط و محفوظ بنانے کی فکر کرنے کے بجائے دینی و دنیوی خطرے میں پڑنے والی حرکتوں کو اپنا معمول بنانے کی عادت ایک دن سب کے لیے خسارہ کا باعث ہوگی ۔ مسلمانوں کے گھروں کا ماحول ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے افراد اگر نماز پڑھتے ہیں تو وہ بچہ جسے نماز پڑھنا بھی نہیں آتا جائے نماز پر کھڑا ہو کر اپنے بڑوں کی تقلید کرتا ہے ۔ بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اپنے بڑوں ، خاص طور پر والدین ہی سے سیکھتا ہے ۔ آخر یہ مسلمان ایسے کیوں بن گئے جن سے یہود بھی شرما جائیں ۔ اپنے کردار سے پہچانے جانے والے مسلمانوں کو اپنے ہی اندر ایسے ’’ کردار ‘‘ نظر آرہے ہیں تو ان کا فرض کیا ہونا چاہئے ۔ آیا ان راہ سے بھٹکے مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے یا ان کا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہئے ، یہ غور طلب امر ہے ۔ گمراہ مسلمانوں کو راہ راست پر لانے کی کوششوں میں مصروف افراد ، ادارے اور تنظیمیں بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیزار اور بدحال ہوتے جارہے ہیں ۔ اصلاح معاشرہ کی مہم رائیگاں ہورہی ہے ۔ شعور بیداری کی کوششیں ناکام دکھائی دے رہی ہیں ۔ اس لیے یہ قوم آہستہ آہستہ دشمنوں کے ’’ ہتے ‘‘ چڑھتے جارہی ہے ۔ شہر کی قیادت کی بے غیرتی اور بے حیائی کا بھانڈہ تو پھوٹا ہی اس کے ساتھ پولیس کی جانبداری بھی سامنے آگئی اور مسلمانوں کے ایک گوشے کی بے حسی بے دینی پر افسوس کرنے والوں کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اس معاشرہ کا منظر خوفناک اور منافقانہ ہوچلا ہے ۔ مسلمانوں پر حالات کا فحش اثر یوں ہی پروان چڑھتا رہے تو علمائے اسلام بھی ہدایت دے دے کر شکایت کنندگان میں شامل ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد مسلمانوں کو ختم کرنے کی کشمکش میں شامل تمام قوتیں مختلف عنوانات اور طریقوں سے اپنے عزائم کو بروے کار لائیں گے ۔ مسلم دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کے اندر بے جا رسومات کو فروغ دے کر کامیابی کی ایک منزل طئے کی تھی ۔ اب شادی تقریبات میں عریاں رقص کا چلن عام کر کے کامیابی کی دوسری منزل پر پہونچ چکے ہیں ۔ آہستہ آہستہ اس طرح کے واقعات کا منظر چاروں طرف دکھائی دینے لگے گا ۔ اگر مسلمان اپنے اطراف ہونے والی خرابیوں کا از خود خاتمہ نہیں کریں گے تو ہر گذرتا دن انہیں ہجومی تشدد یا فرقہ پرستوں کی تیز و تند سازشی لہروں کی نذر کردے گا ۔۔