خموش بیٹھے ہیں کچھ لوگ اداسیاں اوڑھے
گزرنے والا وہ لمحہ، گزر گیا شاید
مسلمانوں کے ساتھ امتیاز
مسلمانوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک ہر شعبہ میں ہورہا ہے اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ممبئی کی ڈائمنڈ جیویلری ایکسپورٹ فرم نے ایک ایم بی اے طالب علم ذیشان علی خاں کی درخواست ملازمت کو محض اس لئے مسترد کردیا کہ وہ ایک مسلمان ہے۔ ممبئی میں روزگار کا شعبہ ہو یا کرایہ کا مکان حاصل کرنا ہو یا جائیداد خریدنے کی بات، ہر جگہ مسلمانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ مذموم رویہ ملک کی مختلف ریاستوں شہروں ، دیہی علاقوں میں تیزی سے اپنا اثر دکھا رہا ہے۔ حکومت کی سطح پر جب فرقہ پرستوں کو اختیارات مل جاتے ہیں تو سماجی سطح پر مذہبی امتیازات رنگ و نسل کا جھگڑا پیدا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اس ڈائمنڈ جیویلری ایکسپورٹ فرم نے مسلم نوجوان کی درخواست کو باقاعدہ اس تحریر کے ساتھ مسترد کردیا کہ یہ فرم اس کو ملازمت نہیں دے سکتی کیونکہ وہ ایک مسلمان ہے۔ اس فرم میں صرف غیرمسلموں کو ہی روزگار ملتا ہے۔ اس درخواست کے استرداد کے بعد تنازعہ پیدا ہونا فطری امر ہے اور جب امتیازی سلوک کا مسئلہ منظرعام پر آیا تو فرم نے ایسے کسی واقعہ کی تردید کی اور کہا کہ اس کے اسٹاف کے ایک رکن کی لغزش کی وجہ سے یہ مکتوب جاری ہوا ہے۔ روزگار کے متلاشی نوجوان ذیشان علی خاں ممبئی کے بزنس مینجمنٹ گریجویٹ ہیں۔ انہوں نے ایک مارکٹنگ ایگزیکیٹیو کیلئے ملازمت کی درخواست دی تھی۔ انہیں فرم کی جانب سے اس طرح کے امتیازی سلوک کی توقع نہیں تھی لیکن جب انہیں مکتوب موصول ہوا تو یہ ایک صدمہ کی بات تھی۔ اس مکتوب کو سوشیل میڈیا پر پیش کرنے کے بعد زبردست ردعمل سامنے آیا اور ساری دنیا کو معلوم ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کس حد تک جاری ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ساری دنیا میں بڑے ملکوں کا دورہ کرتے ہوئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے کوشاں ہیں اور اپنی میک ان انڈیا مہم کو چلارہے ہیں لیکن ہندوستان میں سرکردہ ایکسپورٹ ادارے روزگار کے متلاشی نوجوانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر مسترد کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن کے علاوہ یہ معاملہ قومی اقلیتی کمیشن کی توجہ کا طالب ہے۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہیکہ اب تک انسانی حقوق یا قومی اقلیتی کمیشن نے فوری کارروائی نہیں کی۔ اگرچیکہ قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین نسیم احمد نے اس واقعہ کی سچائی کا پتہ چلا کر اقدام کرنے کا تیقن دیا ہے مگر معاشرتی شعبہ میں جس نوعیت کی ذہنیت کو فروغ دیا جارہا ہے وہ سراسر ہندوستانی معاشی ترقی کیلئے مناسب نہیں ہے۔ ہندوستان میں یا دیگر ملکوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو تعلیمی، معاشی اور سماجی شعبوں میں پسماندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعض ملکوں میں ان کے ساتھ غیرانسانی، غیرقانونی اور انتہائی ظلم و زیادتی کی جاتی ہے۔ اس تلخ اور تکلیف دہ سچائی کے باوجود مسلمان اس امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی قاصر ہیں۔ ممبئی کے مسلم نوجوان نے ہمت کرکے اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ پیش کیا ہے تو اس پر ہر گوشے کی جانب سے حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہندوستان میں سیکولر ذہن کے افراد کا احساس ہیکہ ہندوستان کو فرقہ پرستوں کی وجہ سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ مسلم طبقہ کے ساتھ ہونے والی متواتر زیادتیوں کے باوجود مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا سیاسی گروپ منظم طریقہ سے کام کرنے سے بہت پیچھے ہے۔ ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہر میں جہاں دنیا بھر کے انسان آباد ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں اور ان کے مختلف مذاہب ہیں۔ آپس میں مل جل کر رہ رہے ہیں۔ بعض کمپنیاں اور ادارے امتیازات کو ہوا دے کر معاشرہ میں ایک ناپسندیدہ اور غیرانسانی مزاج کو تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ ہندوستان میں یوں تو برسوں سے مسلمانوں کو بحرانوں سے دوچار کیا جاتا رہا ہے۔ اب مرکز کی بی جے پی حکومت میں یہ سلسلہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس کو روکنا اشد ضروری ہے۔ ہندوستان کے ماضی کو الگ رکھ کر حال کو بیان کرنے کی کوشش کرنے والی طاقتیں اپنے مقاصد میں اسی وقت ناکام ہوسکتی ہیں جب مسلمان اپنے حال پر غور کرتے ہوئے مستقبل کیلئے تیاری کریں۔ مسلم سیاستدانوں کی برائیوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا جبکہ ہر مسلمان جانتا ہیکہ ان کی زندگیوں میں آنے والا بحران انہی سیاستدانوں کی کوتاہیوں اور سیاسی مفاد پرستی کا نتیجہ ہے۔ مسلمانوں کے حق میں آوازیں اٹھانے کا دعویٰ کرنے والی ایسی کتنی بے غیرت سیاسی لابیاں موجود ہیں مگر ان کا کام صرف حکومت کے تابع رہنا ہے۔ مشکل حالات میں کمزور قوموں کو صحیح راستہ دکھانے کا فریضہ اگر سیاسی قیادت، مسلم تنظیمیں اور بااثر افراد اپنی ذمہ داریاں سر انجام نہ دے سکیں تو یہ فریضہ اہل فکر و دانش کو ادا کرنا چاہئے ۔