مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی سازش

تفرقہ برداروں کو قومی سطح کی حکمراں پارٹی کی سرپرستی حاصل ، علماء و مشائخین چوکس رہیں
حیدرآباد ۔ یکم ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : ملک میں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرتے ہوئے انہیں سطحی مسائل میں الجھائے رکھنے کی سازش کو مرکزی حکومت کی پس پردہ حمایت حاصل ہے ۔ قومی سطح پر مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کوشش کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ علماء و مشائخین آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلم دشمن عناصر کی سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور ان کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے قومی سطح پر ایسا محاذ تیار کریں جو ان سازشوں کا موثر جواب دے سکے ۔ مسلمانوں کو مسلک کی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہوئے انہیں ایکدوسرے کا دشمن بنانے کی جو کوشش کی جارہی ہے اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں ۔ مسلمان جو کہ کلمہ کی بنیاد پر آپس میں بھائی ہیں ان کے اتحاد میں رخنہ ڈالتے ہوئے انہیں ایکدوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنے کی سازش کو غیر انتہاء پسند اور انتہاء پسند کے زمرے میں بانٹتے ہوئے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے ۔ مرکزی حکومت ان کوششوں کو کسی طرح مدد فراہم کررہی ہے ۔ اس کا اندازہ کرنا دشوار نہیں ہے چونکہ ایک مخصوص مکتب فکر کے غیر ذمہ دار افراد حکومت کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح کام کررہے ہیں اور اسی طرح وزیراعظم کے قریبی تصور کئے جانے والے ایک مخالف مکتب فکر کے شخص کی جانب سے اپنے ہم خیال لوگوں کے ذریعہ وہی کوشش کی جارہی ہے جو کوشش دوسرا گروپ کررہا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی قائد سبرامنیم سوامی ماضی میں بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ بی جے پی مسلمانوں کے بیشتر عقائد سے تعلق رکھنے والوں سے بہتر تعلقات رکھتی ہے اور مسلکی بنیادوں پر منقسم کئی گروپس کے تعلقات بھارتیہ جنتا پارٹی سے اچھے ہیں ۔ ان کے یہ بیانات اور حالیہ عرصہ میں شمالی ہند میں بعض تنظیموں کی جانب سے دیوبندی سلفی اور وہابی عقائد کے مطبوعات پر پابندی عائد کرنے کے مطالبہ سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ کوششیں نئی نہیں ہیں بلکہ سابق میں بھی اس طرح کی کوششیں کئی ممالک میں کی جاچکی ہیں اور کئی ایسے یہود و نصاریٰ کو عالم دین کی شکل میں مسلمانوں کے درمیان بھیجا گیا جو کہ مسلمانوں کے ایمان کو نہ صرف متزلزل کرنے کے موجب بنے ہیں بلکہ انہیں ناداستہ طور پر ارتداد کی راہ پر ڈال چکے ہیں ۔ vindy.com میں شائع ایک رپورٹ میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک فوجی عہدیدار جو با اعتبار عہدہ گرین بیرٹ پر فائز تھا نے بتایا کہ عراق و افغانستان میں اسلام پسندوں کو شکست سے دوچار کرنے کی کئی راہیں نظر نہ آنے پر امریکی افواج اور خود اس عہدیدار پر مشتمل 15 افراد نے مسلمانوں جیسا لباس اور حلیہ اختیار کرتے ہوئے ان کی تعلیمات سے آگہی حاصل کی اور عام مسلمانوں کے درمیان ذمہ دار علمائے دین کی حیثیت سے پہنچ کر انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے لگے ۔ فوجی عہدیدار کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کی یہ حکمت عملی دونوں ممالک میں "Game Changer” ثابت ہوئی اور دونوں ہی ممالک میں اس حکمت عملی پر عمل آوری کے ذریعہ مسلمانوں میں تبدیلی لائی گئی ۔ اب جب کہ ہندوستان میں مسلمان عددی اعتبار سے مستحکم ہیں اور ان کے حالات اتحاد پیدا ہونے کی صورت میں تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن ان سازشوں کے شکار ہونے کی صورت میں نہ صرف دنیاوی نقصان ہوگا بلکہ آخرت میں بھی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ آپسی انتشار کے خاتمہ اور مسلکی اختلافات سے بالاتر ہوتے ہوئے سازشوں کا شکار ہونے والوں اور سازشیں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے ۔۔