سب کے فروغ کی سرکاری پالیسی پر مثبت کارروائی ضروری، مجلس مشاورت کی تقاریب زریں سے نائب صدر کا خطاب
نئی دہلی ۔ 31 اگست (سیاست ڈاٹ کام) نائب صدرجمہوریہ محمد حامد انصاری نے آج مسلمانوں کو درپیش شناخت اور صیانت کے مسائل کی یکسوئی کیلئے ترقیاتی حکمت عملیاں تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور خواہش کی کہ سب کو فروغ دینے کی سرکاری پالیسی پر حکومت کی جانب سے مثبت کارروائی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا فلاحی اسکیموں سے اخراج، ان کے ساتھ تعصب کا رویہ اور حکومت کی جانب سے ان کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر رہنے کے ازالہ کے لئے جلد از جلد مناسب محکمہ قائم کیا جانا چاہئے۔ نائب صدرجمہوریہ کل ہند مجلس مشاورت کے جشن زریں تقاریب سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور اس کے کارندے مسلمانوں کو فلاحی اسکیموں سے خارج کردیتے ہیں، انہیں محروم کردیتے ہیں اور ان سے تعصب (بشمول تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی) کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ یہ کام جلد از جلد کیا جانا چاہئے اور اس کے لئے مناسب محکمے قائم کئے جانے چاہئیں۔ محمد حامد انصاری نے کہا کہ ملک کو جو چیلنج درپیش ہے، ان میں حکمت عملیوں اور طریقہ کاروں کے تعین کا چیلنج بھی ہے تاکہ مسلمانوں کو درپیش مسائل جیسے بااختیاری، ریاستوں کی دولت میں ان کے حصہ سے محرومی اور طریقہ کار کے تعین کے وقت فیصلوں میں انہیں منصفانہ حصہ سے محروم کردینا جیسے مسائل کی یکسوئی ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا مقصد ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ قابل ستائش ہے لیکن اس پر مثبت کارروائی ضروری ہے تاکہ مشترکہ نکتہ آغاز اور ضروری رفتار کے ساتھ تمام شعبہ ہائے حیات میں کارروائی کی صلاحیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قابلیت افراد، سماج اور سرکاری اقدامات کے ذریعہ فروغ پانی چاہئے تاکہ حقیقی ترقی حاصل ہوسکے۔ پروگرام افراط سے بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل آوری وقت کا تقاضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی دیانتداری کا تقاضہ سماجی، امن کی ضرورت ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں اور سیکولر سیاسی نظام کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں، وہ دوسروں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔ یہ برادری ملک کی جملہ آبادی کا 14 فیصد ہے۔ حامد انصاری نے یاد دہانی کی کہ ستمبر 2014ء کی کنڈو کورٹ میں کہا گیا ہیکہ مسلم اقلیت کی ترقی میں اضافہ ہونا چاہئے اور اس کی بنیاد صیانت کا احساس ہونا چاہئے۔ کنڈو کمیٹی سچر کمیٹی رپورٹ پر عمل آوری کا جائزہ لینے قائم کی گئی تھی۔ انہوں نے برادری کی توجہ جدیدیت کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہاکہ یہ ایک داغدار اظہار ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ مجلس مشاورت کا کردار اہم ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے شناخت اور ایک ناقص انداز میں وقار کے سوالات کا جائزہ لیا ہے اور دونوں کے بارے میں تغیر پذیر ہندوستان اور تغیر پذیر دنیا میں اسے ترویج دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوشش ہندوستان کے حالات اور اس کے تین پہلوؤں تکثیریت، سیکولرازم اور جمہوریت کی انفرادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جانی چاہئے۔ ان کا تبصرہ نمایاں اہمیت رکھتا ہے کیونکہ برادری کے نمایاں حصہ ایک زہریلے حلقہ کی گرفت میں ہے اور ثقافتی اعتبار سے دفاعی موقف اختیار کئے ہوئے ہیں جو ان کی ترقی میں خارج ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ فرقہ بندی اور ذات کی بنیاد پر شناخت ایک حقیقت ہے۔ روایت اور معقولیت کے طریقے فراموش کردیئے گئے ہیں۔ جدیدیت ایک مسخ شدہ اظہار بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی ذہنیت گہرائی سے غوروفکر کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ عقیدہ مثبت ہونا چاہئے اور فرقہ کی فلاح و بہبود کیلئے ہونا چاہئے۔ ہر تبدیلی کو بہتری کے لئے اپنایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی مزاحمت ہونا چاہئے کیونکہ کسی کی وجہ سے ترسیل کا المیہ واقع ہوتا ہے۔ وسیع تر فرقہ وارانہ فلاح و بہبود کے لئے کافی اقدامات ضروری ہیں۔ تنوع کی حد بندیوں کو منجمد کردینے کا اور ہندوستانی سماج کی خصوصیات اپنانے کا رجحان پیدا ہونا چاہئے۔ اس تقریب میں جے ڈی یو کے رکن پارلیمنٹ اے سی تیاگی، سبکدوش جسٹس راجندر سچر، شہری حقوق کی کارکن تیستاسیتلواد، کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے صدر ظفرالاسلام خان، سابق صدر سید شہاب الدین اور مجلس مشاورت سے الحاق رکھنے والی مختلف تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ جسٹس سچر اور تیستاسیتلواد ان 23 شخصیات میں شامل تھے، جنہیں مختلف شعبہ ہائے حیات سے منتخب کیا گیا تھا۔ کل ہند مجلس مشاورت عمر بھر شناخت کے لئے جدوجہد کرتی رہی ہے اور سماج میں اپنا حصہ ادا کرتی رہی ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑی بات ہے۔ ہم معمولی سماجی کارکن ہیں اور اگر ایسی بڑی کونسل نے ہمیں اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے ہمیں کام جاری رکھنے کیلئے حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ تیستاسیتلواد نے ایوارڈ کیلئے نامزد کئے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے یہ بیان دیا۔