میرے ماضی کے زخم بھرنے لگے
اب پھر کوئی بھول کی جائے
مسلمانوں کی حب الوطنی اور مودی
وزیراعظم نریندر مودی نے اس ماہ کے اواخر میں اپنے دورہ امریکہ سے قبل ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کے بارے میں بیان دے کر سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان کا خیال صد فیصد درست ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے وطن کے لئے جئیں گے اور مریں گے۔ انھیں کوئی بھی دہشت گرد تنظیمیں اپنے اشاروں پر محو رقص نہیں کراسکتی۔ مودی کے اس بیان کا تقریباً ہر گوشے سے خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ بی جے پی کے مسلم قائدین بھی بہت خوش ہیں۔ تاہم سنگھ پریوار کے ارکان پر کیا گذر رہی ہے اور وہ اس بیان کا کیا مطلب اخذ کررہے ہیں۔ یہ بات ہنوز منظر پر نہیں آئی ہے البتہ عالمی سطح پر خاص کر امریکی مسلمانوں میں جہاں مودی پہونچنے والے ہیں یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہندوستان کی نئی حکومت کے سربراہ اپنے کٹر پسندانہ زعفرانی نظریہ کے باوجود اہم اور ذمہ دارانہ عہدہ پر فائز ہونے کے بعد حکمرانی کے فرائض کو محسوس کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں۔ مودی کے اس بیان میں کسی کو مسلمانوں کو دھوکہ دینے والی کوئی بات نظر آرہی ہے تو وہ اس لئے ہے کہ ان کی ریاست گجرات میں مسلمانوں کا بہت لہو بہایا گیا ہے جب وہ چیف منسٹر تھے مسلمانوں کو ستایا گیا تھا۔ اب انھیں مسلمانوں کے بارے میں یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ان کی حب الوطنی کسی شکست و شبہ سے بالاتر ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی حب الوطنی کے ثبوت کے حوالے سے کسی سے سند کی ضرورت نہیں ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بیان دیا ہے تو پھر ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں سنگھ پریوار کے نظریہ میں وقت کے ساتھ ایک کروٹ بدلی ہے۔ گجرات فسادات کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی آنکھوں سے ماتمی آنسو خشک نہیں ہوئے ہیں تو نریندر مودی کو اپنی قیادت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو فوری ختم کراتے ہوئے گجرات فسادات کے لئے ندامت کا اظہار کرنا چاہئے۔ 64 سالہ نریندر مودی اپنے ہونہار ذہن اور معاملہ فہم سوچ کے ساتھ مرکز میں حکومت کرتے ہوئے ایک طویل مدتی ایجنڈہ ساتھ لے کر چل رہے ہیں تو اس میں کامیابی کے لئے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو بھی ہمراہ رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے بارے میںاب تک لب کشائی سے گریز کرنے والے مودی نے اچانک قومی و عالمی سطح پر خود کو ایک مدبر سیاستداں بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر مستقبل کی سمت اُٹھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اس لئے وہ ماضی کی تلخ یادوں کو اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے۔ ان کا یہ انٹرویو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلا انٹرویو ہے جس میں اُنھوں نے ہندوستانی مسلمانوں پر اپنے کامل ایقان کا اظہار کیا ہے۔ یہ ان کی ذاتی و مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن مجید اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنے کے بھی متمنی ہیں۔ ہندوستان کے تعلق سے ان کے شعور کی کلید قوم پرستی ہے تو مسلمانوں کے بارے میں ان کی پارٹی کے دیگر قائدین کی شرانگیز تقاریر کا انھیں سخت نوٹ لینا چاہئے۔ مگر اب تک انھوں نے اپنی پارٹی کے بے لگام قائدین پر لگام نہیں کسی ہے۔ بی جے پی کے لئے صدر امیت شاہ نے لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے ہندوؤں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ وزیراعظم کو مذکورہ باتوں کی جانب دھیان دینا چاہئے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس بیان کے بعد زیادہ مطمئن ہونے یا توقعات وابستہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ اُنھوں نے گزشتہ چار ماہ کے دوران کئی پہلو بدلے ہیں مگر حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آسکتے ہیں۔ اس تناظر میں نریندر مودی کے بیان کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی کو اس وقت قومی سطح کے ساتھ عالمی سطح پر بھی اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنی ہے۔ اس لئے وہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کی بنیاد پر ہی ہندوتوا کا ڈھنڈورہ نہیں پیٹ رہے ہیں۔ ان کی پارٹی نے بھی تہہ دل سے مودی کے بیان کی ستائش کی ہے اور کہا ہے کہ مودی نے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے دل کی آواز ہے۔ سچ کا آئینہ بھی یہی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے دہشت گرد تنظیموں کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور وہ دہشت گردی سے کوسوں دور ہیں۔ سرکاری سطح پر بھی اب تک ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی کہ جس سے یہ گمان پیدا ہو کہ نریندر مودی حکومت ہندوستانی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ سیاست اور منافقت کا شکار لوگوں کو مودی کے اس بیان میں کئی خرابیاں نظر آئیں گی۔ ان کے الفاظ کی طاقت کا ہی اثر ہے کہ کانگریس نے ان کے بیان کو ایک فریب سے تعبیر کیا ہے۔ اصل میں مودی کا یہ بیان ایک حوصلہ افزاء پہلو ہے۔ ان سے امن دوستی اور ایک طاقت کے تابع کام کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مودی کے اس بیان کے پس منظر اور آئندہ ہفتہ دورہ نیویارک کے تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی امن و استحکام کے لئے دنیا بھر میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جارہی ہے تو حکومت ہند کے سربراہ کا بھی اس سمت میں اُٹھنے والا ایک پہلا قدم ہوسکتا ہے۔
صحت عامہ اور صاف صفائی کا مسئلہ
ہندوستان کے بشمول دنیا کے کئی ملکوں میں اِن دنوں حفظان صحت اور صفائی کا مسئلہ سنگین رُخ اختیار کرچکا ہے۔ صفائی کا خاص خیال رکھنے کی مہم کے ساتھ وزارت شہری ترقی اور بل گیٹس فاؤنڈیشن نے اشتراکیت کے ساتھ بیت الخلاؤں کا قیام عمل میں لاکر ملک میں صاف صفائی کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بل گیٹس نے ہندوستان میں سرکاری طور پر کئے جانے والے صاف صفائی کے اقدامات کا جائزہ لیا ہے۔ سوچھ بھارت اسکیم کے تحت شروع کردہ مشن کو اس سال 2 اکٹوبر سے شروع کیا جارہا ہے۔ ملک بھر کے سرکاری اسکولوں میں صاف صفائی کے ناقص انتظامات اور طلباء کی صحت پر پڑنے والے اثرات تشویشناک ہیں۔ ان دنوں ماہرین تعلیم کے درمیان یہ بحث شروع ہوچکی ہے اسکولوں میں بیت الخلاؤں کے قیام کو حکومت کس حد تک یقینی بنائے گی۔ ایک دو دہے قبل تک بھی تعلیم کے لئے ناقص پن کا نوٹ لیا جانے لگا تو اس میں بہتری کی کوشش کی گئی تھی اب سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاؤں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ اس طرح کے ٹائیلٹس کی تعمیر کو ضروری سمجھا جارہا ہے تو وزارت فروغ انسانی وسائل کو ہی کوئی ٹھوس قدم اُٹھاکر یوم آزادی کے موقع پر وزیراعظم مودی کی جانب سے تاریخی قلعہ کی فصیل سے کی گئی تقریر اور صاف صفائی کے دعوے کو پورا کرنا ہوگا۔ طلباء کو ایک صاف ستھرا اور اچھا ماحول فراہم کیا جائے تو اسکول میں روزانہ 6 گھنٹے گذارنے والے تمام طلباء تعلیم پر دھیان دے کر اپنی صلاحیتوں کو فروغ دیں گے۔ تلخ سچائی یہ ہے کہ صاف صفائی نہ ہونے سے کئی طلباء سرکاری اسکولوں کو جانا پسند نہیں کرتے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر فروغ انسانی وسائل اسکولوں میں بیت الخلاؤں کی تعمیر سے متعلق سنجیدہ ہیں تو انھیں جامع منصوبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔