مسلمانوں کی آزمائش بھی نعمت ہے

محمد یوسف
قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے یہ فرماکر: ’’اور سست نہ پڑو اور غم نہ کھاؤ اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو‘‘ (آل عمران۔۱۳۹) مؤمنوں کو یہ خوش خبری سنادی کہ اگر تم ثابت قدم رہو گے، ہمت نہ ہارو گے اور غم نہ کروگے تو تم ہی دنیا میں غالب رہو گے اور فتحیاب ہوگے، لیکن شرط یہ ہے کہ تمہارا ’’مؤمن‘‘ یعنی ایمان والا ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ آیت کی تفسیر میں جنگ احد کے واقعہ کو پیش کیا گیا ہے کہ جب مسلمانوں کو جنگ احد میں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تو منافقین اور دشمنوں کے طعنے سن کر مسلمان بہت رنجیدہ ہوئے، کیونکہ منافقین یہ کہنے لگے تھے کہ ’’اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پیغمبر خدا تھے اور سچے تھے تو یہ نقصان کیوں ہوا؟ اور تھوڑی دیر کے لئے ہی یہ ناکامی کیوں پیش آئی؟‘‘۔ ان حالات میں یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ’’اگر اس لڑائی میں تم کو زخم پہنچے یا تکلیف برداشت کرنا پڑا تو اس طرح کے زخم اور تکالیف دشمنوں کو بھی برداشت کرنا پڑا‘‘۔

اگر جنگ احد میں ۷۰ تا ۷۵ مسلمان شہید ہوئے اور بہت سارے زخمی ہوئے تو ایک سال پہلے جنگ بدر میں دشمنوں کے بھی ۷۰ لوگ جہنم رسید ہو چکے ہیں اور خود اس جنگ (احد) میں بھی ابتدائً ان کے بہت سے لوگ قتل کئے گئے یا مجروح ہوئے۔ چنانچہ ایک اور جگہ فرمایا: ’’اور اللہ نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا، جب تم انھیں اس کے حکم سے قتل کرنے لگے۔ اگر اپنے نقصان کا ان کے نقصان سے مقابلہ کروگے تو غم اور افسوس کرنے کاکوئی موقع نہیں‘‘ (آل عمران۔۱۵۲) اللہ کی مشیت یہی ہے کہ سختی، نرمی، دکھ، سکھ اور تکلیف و راحت کے دنوںکو لوگوں میں تبدیل کرتا رہتا ہے، جس میں اللہ کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جب دشمن دکھ اٹھاکر بھی باطل کی حمایت میں ہمت نہیں ہارتے تو حق کی حمایت میں مسلمان کیونکر ہمت ہار سکتے ہیں۔ دشمنوں کی عارضی کامیابی کا سبب یہ نہیں ہے کہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے، بلکہ دوسرے اسباب ہیں۔ فتح اور شکست بدلتی چیزیں ہیں، ایک طرف مسلمانوں کو جو شہید ہوئے، شہادت کا بلند مقام عطا کرنا مقصد تھا تو دوسری طرف کافروں کو آہستہ آہستہ مٹادینا منظور تھا کہ جب وہ اپنے عارضی غلبہ اور وقتی کامیابی پر مسرور اور مغرور ہوکر غلطیاں کریں گے تو پھر اللہ تعالی کے قہر و غضب کے اور زیادہ مستحق ہوں گے۔
واضح رہے کہ حالات سے غمگین ہوکر شکست تسلیم کرلینا مؤمن کا شیوہ نہیں ہے۔ سورہ مؤمنون کا ابتدائی آیات میں اللہ تعالی نے مؤمن کی خصوصیات اور صفات کو بیان کیا ہے کہ ’’مؤمن وہ ہیں، جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع رکھتے ہیں‘‘۔ خشوع کے معنی ہیں کسی کے سامنے خوف اور ہیبت کے ساتھ ساکن اور پست ہونا۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ’’خاشعون‘‘ کی تفسیر ’’خائفون ساکنون‘‘ سے کی ہے۔ اس طرح اللہ تعالی نے مؤمن کی چھ صفات بیان کی ہیں: (۱) خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والے (۲) باطل، لغو اور نکمی باتوں سے دور رہنے والے (۳) زکوۃ اور مالی حقوق ادا کرکے اپنے بدن، نفس اور مال کو پاک رکھنے والے (۴) شہوات نفسانی کو اپنے قابو میں رکھنے والے (۵) امانت و عہد کے پابند اور معاملات کو درست رکھنے والے (۶) اللہ تعالی نے پھر آخر میں نمازوں کی پوری حفاظت کرنے اور اپنے وقت پر آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ دوسری جانب احادیث میں مؤمن کی جو صفات بیان کی گئی ہیں، وہ اس طرح ہیں:

(۱) خوشی حاصل ہو تو شکر کرے اور جب تکلیف پہنچے تو صبر اختیار کرے۔ یہ سب اس کے حق میں ہے۔ (مسلم)
(۲) مؤمن خدا کی نگاہ میں بعض فرشتوں سے بزرگ و برتر ہے۔ (ابن ماجہ)
(۳) مؤمن وہ لوگ ہیں، جو اخلاق میں سب سے اچھے ہوں۔ (ابوداؤد، دارمی)
مندرجہ بالا صفات کے حامل مؤمنوں نے جب زیر عنوان آیت سنی تو پھر سے ایک حوصلہ پیدا ہوا۔ دشمنوں نے دوران جنگ جو افواہ اڑادی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا گیا، جھوٹ ثابت ہونے پر مسلمانوں میں پھر صف بندی ہو گئی۔ دراصل ابن قمیہ کافر نے مشرکوں میں جاکر یہ افواہ پھیلا دی تھی کہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیا ہے۔ اس غلط خبر نے مسلمانوں کے دل غمزدہ کردیئے، ان کے قدم اکھڑ گئے اور لڑائی سے بددل ہوکر پیچھے ہٹ گئے۔

ایک مہاجر نے دیکھا کہ ایک انصاری جنگ احد میں زخموں سے چور زمین پر گرپڑے ہیں اور خاک و خون میں لوٹ رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ ’’اگر یہ افواہ صحیح ہے تو وہ اپنا کام کر گئے، لہذا اب تم بھی آپﷺ کے دین پر قربان ہو جاؤ‘‘۔ اس بارے میں زیر عنوان آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالی نے فرمایا ’’حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قتل یا انتقال ایسی چیز نہیں کہ تم اللہ اللہ کے دین سے الٹے پیروں پھر جاؤ اور ایسا کرنے والے اللہ کا کچھ نہ بگاڑیں گے۔ اللہ تعالی انھیں لوگوں کو جزائے خیر دے گا، جو اس کی اطاعت پر قائم رہیں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تابعداری میں لگ جائیں‘‘۔

جنگ احد میں شکست بالخصوص اس لئے بھی تھی کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں اور صبر نہ کرنے والوں کا امتحان لینا چاہتا تھا اور جو لوگ مدت سے شہادت کی آرزو رکھتے تھے، انھیں کامیاب بنانا تھا۔ سخت آزمائشوں کے بغیر کوئی جنت میں نہیں جاسکتا، جیسا کہ سورہ بقرہ میں ہے: ’’کیا تم یہ جانتے ہو کہ تم سے پہلے لوگوں کی جیسی آزمائشیں ہوئیں ویسی تمہاری نہ ہوں اور تم جنت میں چلے جاؤ، ایسا نہیں ہوگا‘‘۔ ایک جگہ یہ بھی فرمایا ’’کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم صرف ان کے اس قول پر کہ ہم ایمان لائے، انھیں چھوڑدیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزمائش، تکلیف اور مشکلیں مسلمانوں کے لئے اللہ کی طرف سے ایک معنی میں نعمت ہیں، کیونکہ ان ادوار سے گزرنے کے بعد ہی ایک مؤمن جنت کا حقدار ہوتا ہے اور اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو جاتا ہے، یہی اس کے لئے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مؤمنوں کے لئے آخرت میں جنت اسی وقت حاصل ہوگی، جب وہ آزمائشوں سے گزرتے ہوئے ثابت قدمی کا ثبوت دیں گے۔