قومی سطح پر سیکولر سوچ و فکر کا زوال ہندوستانی مسلمانوں کے لئے تشویشناک صورتحال پیدا کررہا ہے۔ نریندر مودی زیرقیادت حکومت کے تحت مسلمانوں کو کئی اندیشوں سے گذرنا پڑے گا۔ پہلا فرقہ وارانہ کھیل دسہرہ تہوار یا نوراتری کے موقع پر منائے جانے والے گربا میں غیرہندوؤں کی شرکت پر پابندی کے لئے بعض ہندو تنظیموں نے جس طرز کی مہم شروع کی ہے، وہ مرکزی حکومت کے لئے توجہ طلب ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک طرف مسلمانوں کو حب الوطن قرار دیا ہے تو ان کی پارٹی سے وابستہ قائدین یا حلیف تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے سلسلے کو بند نہیں کیا۔ ودودھرا میں لوک سبھا حلقہ سے کامیابی کے بعد وارناسی کی نشست کو برقرار رکھتے ہوئے مودی نے جب ودودھرا سے استعفیٰ دیا تو یہاں ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش سے گذرنے کی نوبت آگئی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے بارے میں فرقہ پرست تنظیموں نے جس طرح کے منصوبے بنائے ہیں، وہ ایک سیکولر ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتے۔ دہلی، ممبئی، کولکتہ، چینائی میں مسلمانوں کے بارے میں عوام کی رائے مختلف ہے، کہیں فرقہ پرستی کا غلبہ ہے تو کہیں نفرت انگیز مہم کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ ممبئی میں ممبرا، شیواجی نگر اور بھینڈی بازار جیسے علاقوں میں مسلمانوں پر کڑی نظر رکھ کر ان کی نقل و حرکت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف پیدا کردہ نفرت کا تسلسل ممبئی اور دیگر شہروں میں دکھائی دے رہا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گرد، تشدد پسند اور خراب شہریوں کے طور پر بدنام کرنے کی کوشش کرنے والی تنظیمیں اور میڈیا نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے ملک میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور گجرات کے شہر ودودھرا میں ہوا فساد فرقہ پرستوں کے حوصلوں کو ہوا دینے کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔ گجرات میں وی ایچ پی پر مقامی لیڈر پروین توگاڑیہ کا کنٹرول ہے جو مسلم دشمنی میں سب کو پیچھے چھوڑ دینے کیلئے ہر وقت کوشاں نظر آتے ہیں۔ نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے عین موقع پر ان کے ایک لوک سبھا حلقہ ودودھرا میں فساد برپا کیا جاتا ہے تو فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرتا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے عالمی سفر کے دوران جس محتاط طریقہ سے اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کو پیش کیا، اس کی ستائش کی جارہی ہے مگر ان کی پارٹی سے الحاق رکھنے والی تنظیموں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کرکے ان کی بدنام کو عالمی سطح پر مزید اُچھالنے کی کوشش کی۔ 2002ء میں گجرات فسادات کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے لئے بدنام نریندر مودی کو اگرچیکہ امریکہ میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی مگر لوک سبھا انتخابات میں عوام کی اکثریت کی تائید سے اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ایک قوم کے سربراہ بن گئے، اس لئے امریکہ نے ایک ملک کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں امریکہ کا ویزا جاری کیا ہے۔ بحیثیت ایک عام انسان یا لیڈر ان کا عالمی معیار اور پہچان ایک مسلم نسل کش لیڈر کی حد تک ہی محدود ہے۔ صدر امریکہ براک اوباما اور وزیراعظم نریندر مودی نے گجرات فسادات کے بعد 2005ء میں امریکی ویزا نہ دیئے جانے کے تنازعہ کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی مگر بادی النظر میں وہ امریکی عوام کی نظروں میں انسانیت کے دشمن ہی ہیں،
اس لئے ٹیکنیکل طور پر ان کے دورہ امریکہ پر پابندی برقرار ہے۔ وہ صرف ایک ملک کے سربراہ کی حیثیت سے دوسرے ملک کا سفر کرسکتے ہیں ، ایک عام آدمی کی طرح نہیں، جبکہ مودی نے امریکہ میں خود کو سب سے چھوٹا آدمی قرار دیا ہے، لیکن گجرات فسادات کا سچ ان کا تعاقب کررہا ہے تو وہ اس بدنامی کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ انہیں قومی و عالمی سطح پر اپنی بگڑی ہوئی شبیہ درست کرنی ہے تو سب سے پہلے ہندوستان میں فرقہ پرستوں پر لگام کسنے کی ضرورت ہے۔ ان فرقہ پرستوں نے ہندوستانی تہذیب اور تہواروں سے دُور رکھنے کے لئے مسلمانوں پر مختلف طریقے مسلط کررہے ہیں جیسا کہ گجرات کی ہندو تنظیموں نے گربا میں شرکت کرنے کے خواہاں افراد کو وندے ماترم گیت گانے اور گائے کا پیشاب پینے کی شرط رکھی تاکہ اس شرط کے ذریعہ وہ مسلم نوجوانوں کو جو عام طور پر نوراتری تہوار میں حصہ لیتے ہیں، باز رکھیں۔ حکمراں پارٹی بی جے پی کو اس طرح کی حرکتوں کا سخت نوٹ لینا ضروری ہے۔ اگر بی جے پی یا وزیراعظم مودی نے اپنی بغل بچہ تنظیموں کی شرارتوں، اشتعال انگیزی و شرانگیزی کا نوٹ نہیں لیا تو پھر اس کی قومی و عالمی سطح کی دوڑ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کیلئے یہی تنظیمیں ذمہ دار ہوں گی۔ اچھی حکمرانی فراہم کرنے کے وعدہ سے مجرمانہ اجتناب مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ مجرمانہ طور پر امتیاز برتنے کے واقعات میں اضافہ بھی وزیراعظم مودی کی بدلتی سیکولر شبیہ کو مشکوک بنا دے گا۔