تھے وہاں محفوظ شہری جس جگہ اسلام تھا
آج پھر کیوں نام سن کر سب کے سب گھبراگئے
افغانستان میں ہندوستانی انجنیئرس کا اغوا
افغانستان میں 7ہندوستانی انجنیئرس کا اغوا کرنے والوں نے اس جنگ زدہ ملک میں تعمیرنو کے کاموں میں مصروف گروپس کو خوفزدہ کر کے امن کے قیام کی کوششوں کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ سات ہندوستانی انجنیئرس اتوار کے روز ایک منی بس میں سرکاری زیر انتظام پاؤر اسٹیشن جارہے تھے ‘ انہیں نامعلوم بندوق برداروں نے ان کے افغان ڈرائیور سمیت اغوا کرلیا ۔ یہ واقعہ افغانستان میں جاری سلسلہ وار تشدد کی کارروائی کا تسلسل ہے ۔یہ سات ہندوستانی انجنیئرس ان 150 ہندوستانی انجنیئرس اور تکنیکل ماہرین میں شامل تھے جو پورے افغانستان میں بڑے انفراسٹرکچر کے پراجکٹس کیلئے کام کررہے ہیں ۔ افغانستان میں تاوان کیلئے کسی کا اغوا کرلینا عام بات ہے ‘ مقامی افراد کو اغوا کر کے ان کے رشتہ داروں سے تاوان کی رقم وصول کی جاتی ہے ۔ غربت اور بڑھتی بیروزگاری نے اس ملک کی صورتحال کو دن بہ دن ابتر بنادیا ہے ۔ عالمی طاقتوں نے اس ملک کو ہر سطح پر کمزور اور تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ حال ہی میں دو شدید خودکش حملوں میں کئی صحافیوں سمیت 30 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل ہو یا دور درازوالے پسماندہ صوبے تشدد اور خونریزی کے واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں ۔
ہندوستان اس جنگ سے تباہ ملک کی تعمیرنوکیلئے عالمی کوششوں میں شامل ہے ۔ ہندوستانی عہدیداروں کے اغوا کا نیا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے 2016 میں بھی کابل میں ایک ہندوستانیامدادی کام کرنے والے عہدیدار کا اغوا کیا گیا تھا ۔ اس خاتون عہدیدار کو 40دنوں بعد رہا کرایا گیا ۔ بیرونی باشندوں کو بھی اغوا کیا گیا تھا اس میں سے کسی کی موت ہوئی تو کسی کی زندگی ہی تبدیل ہوگئی ۔ ایسے میں عالمی امدادی ادارہ کیلئے کام کرنے والی خاتون ورکرس ہوں یا صحافیوں کا معاملہ اغوا کرلئے جانے اور رہائی کی داستانیں ساری دنیا میں مختلف طریقہ سے پیش کی جاتی ہیں ۔ ایک بیرونی خاتون نے افغانستان میں اغوا ہونے اور کئی دنوں کی مغویہ زندگی گذارنے کے بعد وہ جب رہاکی گئی تو باہر آکر اپنے مغویہ کاروں کی اسلامی طرز زندگی سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا ۔ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد ہے مگر آج جن سات ہندوستانیوں کا اغوا ہوا ہے ان کی رہائی کیلئے کوششیں تیز ہونی چاہیئے اور یہ پتہ چلانا ضروری ہے کہ اغوا کاروں کا مقصد و منشا کیا ہے ۔ تاوان کے لئے انہیں یرغمال بنالیا گیا ہے یا کسی اور مشن کے تحت انہیں پریشان کیا جارہا ہے ۔ افغانستان میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کی سیکورٹی اور سلامتی کی ذمہ داری خود حکومت ہند کو ہونی چاہیئے ۔ اغوا کردہ سات ہندوستانی انجنیئرس اس ملک کی تعمیر نو کے پراجکٹس کے اہم رکن ہیں تو انہیں خوفزدہ کر کے اس ملک میں تعمیر نو کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے ۔حکومت ہند کاادعا ہے کہ وہ افغانستان میں مقیم ہندوستانیوں کیلئے بروقت سیکورٹی الرٹ جاری کرتی ہے ‘ اس جنگ زدہ ملک کے سفر سے گریز کرنے عوامی مشورہ دیا جاتا ہے مگر اتنا کافی نہیں ہے ۔ جب سیکورٹی ایجنسیوں کو اندازہ ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے تو پھر ان تعمیر نو پراجکٹس کیلئے کام کرنے والے اہم عہدیداروں کے ساتھ کوئی بھی واقف ہوسکتا ہے ‘ اس کے سیکورٹی کے سخت ترین اقدامات کئے جانے کی ضرورت تھی ۔ افغانستان کے بغلان صوبہ سے ان ہندوستانیوں کے اغوا کے بعد وہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان افغان حکام سے فوری ربط پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ صوبہ اس وقت طالبان کی ازسرنو شروع ہوئی سرگرمویں کا مرکز ہے ۔ ہندوستان نے گڑبڑ زدہ بلکہ جنگ سے تباہ اس ملک کو دوبارہ امن و انفراسٹرکچر کے معاملہ میں بحال کرنے میں ہرممکنہ مدد کی ہے ۔ ایسے میں ان انجنیئرس کا اغوا سراسر ایک زیادتی ہے بلکہ افغانستان تو برقی سربراہی کے ذریعہ روشنی فراہم کرنے والوں کی زندگیوں کو تاریک بنانے والی کارروائی کی کوئی بھی تائید نہیں کرے گا جس کسی گروپ نے اس کارروائی کو انجام دیا ہے وہ افغانستان کو بد سے بدتر تاریک دور میں لے جانے کی کوشش کررہا ہے ۔ عالمی سطح پر اس مسئلہ کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان میں بیرونی باشندوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے مزید سیکورٹی کے موثر انتظامات کس طرح کئے جاسکتے ہیں اور گذشتہ ایک دہے کے دوران عالمی اداروں کی کاوشوں کے باوجود یہاں عام شہریوں اور بیرونی امدادی کام انجام دینے والوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہیں تو اس ملک کی سنگین اور ابتر صورتحال عیاں ہوتی ہے۔