مسلمانوں کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیکر حقوق منوانے کا مشورہ

حیدرآباد ۔ 4 جنوری (سیاست نیوز) صدر آل انڈیا کانگریس کمیٹی اقلیتی ڈپارٹمنٹ مسٹر خورشید احمد سعید نے مسلمانوں کو منظم طریقے سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوئے اپنے حقوق منوانے کا مشورہ دیا۔ سوائے کانگریس کے کوئی اور جماعت سیکولر نہ ہونے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کیلئے کام کرنے کا دعویٰ کیا۔ پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ کے زیراہتمام گاندھی بھون میں منعقدہ ریاستی اقلیتی کنونشن میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے یہ بات بتائی۔ صدر پردیش کانگریس اقلیت ڈپارٹمنٹ مسٹر محمد سراج الدین نے کنونشن کی صدارت کی۔ سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی و رکن قانون ساز کونسل مسٹر ڈی سرینواس، سابق ریاستی وزیر مسٹر محمد فریدالدین، کانگریس کے ارکان اسمبلی مسٹر شاہجہاں باشاہ، مسٹر مستان ولی کانگریس کے رکن پارلیمنٹ مسٹر انجن کمار یادو کے علاوہ دیگر قائدین میں مسٹر سید یوسف ہاشمی، مسٹر میر ہادی علی، مسٹر ساجد پاشاہ، مسٹر عبدالغنی کے علاوہ دوسرے قائدین موجود تھے۔ مسٹر خورشید احمد سعید نے کہا کہ کانگریس ایک سیکولر جماعت ہے جو فرقہ پرستوں کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہے۔ کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے اقلیتوں کی ترقی و بہبود کیلئے کام کئے ہیں۔ بعض کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں، جس کا بھی وہ اعتراف کرتے ہیں۔ مسلمانوں نے علامہ اقبال کے اس شعر ’’خود ہی کو کر بلند اتنا کہ‘‘۔ سے کچھ نہیں سیکھا اور نہ ہی حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال قبل جمہوریت کا جو سبق پڑھایا تھا اس کو اپنایا ہے۔

اپنی طاقت کی اہمیت کو بھول کر مسلمان دوسروں سے شکوے شکایت کرنے لگے ہیں۔ زمین پر قدم جمانے سے قبل آسمانوں میں اڑان بھرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنا محاسبہ کرنے اور سیاست سیکھنے کی ضرورت ہے۔ پنچایت پر قدم جماؤگے تو پارلیمنٹ تک پہنچنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ مسلم قائدین نے بھی قوم کے مسائل کو حکومتوں اور پارٹی قیادت تک صحیح نہیں پہنچایا ہے۔ دوسروں سے زیادہ ہم بھی ہماری بربادی کیلئے برابر کے ذمہ دار ہیں۔ اقلیتیں جب بھی متحد ہوجائیں گی ان کے آگے حکومت گھٹنے ٹیک دیں گی۔ وقف جائیدادوں کو فروخت کرنے والوں کو کبھی خدا معاف نہیں کرے گا۔ مسلمان کردار کے غازی بنے۔ خواتین بھی سیاسی حقوق حاصل کرنے کیلئے آگے آئیں۔ مجھے ریاست میں اقلیتوں سے ہونے والی ناانصافیوں کی شکایت وصول ہوئی ہیں، جس کے بارے میں وہ صدر پردیش کانگریس کمیٹی سے وجہ طلب کریں گے۔ مسٹر محمد سراج الدین نے کہا کہ کانگریس کے دورحکومت میں اقلیتوں کی ترقی اور بہبود کیلئے بہت کام ہوئے ہیں مگر اس کی تشہیر کرنے میں کانگریس پیچھے رہی ہے۔ پوٹا اور ٹاڈا کو برخاست کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو بہت بڑی راحت پہنچائی گئی۔ 4 فیصد مسلم تحفظات فراہم کیا گیا ہے۔

دینی مدارس کو عصری تقاضؤں سے لیس کیا گیا ہے۔ 36 کروڑ کے اقلیتی بجٹ کو بڑھا کر 1027 کروڑ تک پہنچایا گیا ہے۔ کانگریس اور اقلیتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جس دن اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں نے کانگریس کا ساتھ دیا کانگریس کو اقتدار نصیب ہوا ہے۔ ساتھ چھوڑ دیا تو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ مسلمانوں کو سب پلان اور ہر شعبہ میں حصہ داری دینے کا مطالبہ کیا۔ سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی و رکن قانون ساز کونسل مسٹر ڈی سرینواس نے کہا کہ نرسمہا راؤ کے دورحکومت میں بابری مسجد کا انہدام ہوا تھا اس کے بعد مسلمان کانگریس سے دور ہوگئے تھے۔ تاہم سونیا گاندھی کی جانب سے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد مسلمان پھر سے کانگریس کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ مرکز میں یو پی اے اور ریاست میں کانگریس کو حکومت تشکیل دینے میں اقلیتوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات ملنے کیلئے دونوں ذمہ دار ہیں۔ ایک سونیا گاندھی دوسرے مسلمان دوسروں کے دعوے کھوکھلے ہیں مسلمانوں نے مطالبہ کیا اور سونیا گاندھی نے اس کو قبول کیا۔ ملک کے عوام نریندر مودی کو کبھی وزیراعظم بننے نہیں دیں گے۔