ماضی کی رکاوٹوں اور عدالتی فیصلوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ٹھوس عملی اقدامات کی اپیل، عہدیداروں کو مسلم تنظیموں کی یادداشت
حیدرآباد۔/4اکٹوبر، ( سیاست نیوز) تلنگانہ میں مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے روزنامہ سیاست کی سرپرستی میں جاری مسلم امپاورمنٹ تحریک کے ایک حصہ کے طور پر مختلف تنظیموں نے دارالحکومت حیدرآباد اور ریاست کے مختلف اضلاع میں اعلیٰ سرکاری حکام اور عوامی نمائندوں کو یادداشتیں پیش کی۔ سکندرآباد کنٹونمنٹ پیپلز ویلفیر کمیٹی کے ایک وفد نے تحصیلدار و ایکزیکیٹو مجسٹریٹ ضلع حیدرآباد کو ایک یادداشت پیش کی۔ وفد میں کوثر پاشاہ، عبدالقادرنواب، محمد اسلم، سید سلیم، محمد جاوید اسد، محمد ہدایت اللہ ( راشد )، محمد غوث اور دوسرے شامل تھے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کی فراہمی کیلئے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی ٹی آر ایس حکومت کے وعدہ پر عمل آوری کا مطالبہ کرتے ہوئے یادداشت میں کہا گیا کہ ’’ مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کیلئے حکومت کی کوششوں کی ہم ستائش کرتے ہیں لیکن آپ کے ذریعہ حکومت کو ہماری اس تشویش سے بھی باخبر کرنا چاہتے ہیں کہ تحفظات کے مسئلہ پر مختلف مقدمات کے ضمن میں مختلف عدالتوں کی طرف سے صادر کردہ فیصلوں کے مطابق تحفظات کی فراہمی کیلئے حکومت نے ضروری دستوری ضابطہ اختیار نہیں کیا تھا، اس تناظر میں تلنگانہ کے مسلمانوں کو وعدہ کے مطابق 12فیصد تحفظات کی فراہمی محض ایک خواب و سراب بن گیا ہے کیونکہ غریب و پسماندہ مستحق مسلمانوں کے سماجی و معاشی حالات کا پتہ چلانے کیلئے 3مارچ 2015 کو تشکیل شدہ کمیشن، دستوری ضابطہ سے مطابقت و ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ اس صورتحال میں ہمیں اندیشہ ہے کہ پسماندہ طبقات کے مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کیلئے قانون وضع کئے جانے تک تلنگانہ میں ہزاروں جائیدادوں پر بھرتیوں کا عمل مکمل ہوجائے گا اور مسلمان ان ثمرات سے محروم رہ جائیں گے کیونکہ بھرتیوں کیلئے اعلامیہ کی اجرائی سے 1242 جائیدادوں سے مسلمان پہلے ہی محروم ہوچکے ہیں‘‘۔ اس یادداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ 21ستمبر 2004 کو جاری کردہ حکمنامہ 33کے ذریعہ دیئے گئے 5فیصد تحفظات کو اے پی ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کالعدم کردیا تھا کہ صرف پسماندہ طبقات کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر ہی تحفظات دیئے جاسکتے ہیں۔ مزید برآں کسی جائز وجہ کے بغیر کورٹ کی طرف سے مقررہ 90فیصد کی حد سے تجاوز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے 2007ء کے ایک قانون کو 8فبروری2010ء کو کالعدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی سی کمیشن کی طرف سے اختیار کردہ طریقہ کار غلط ہے اور اس میں تفصیلی مواد اور ثبوت پر مبنی اعداد فراہم نہیں کئے گئے جس سے ان طبقات کی پسماندگی کا ثبوت فراہم ہوسکے جنہیں تحفظات کی فراہمی کیلئے سفارش کی گئی ہے۔‘‘ یادداشت میں کہا گیا ہے کہ’’ سپریم کورٹ کی طرف سے فراہم کردہ عبوری راحت کے سبب ریاست میں چار فیصد تحفظات جاری ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ موجودہ عمل بھی عدالت میں اسی انجام پر نہ پہونچ جائے۔‘‘