مانا کہ پر فریب ہے وعدہ ترا مگر
کرتے ہیں انتظار ‘ بڑے اعتبار سے
مسلمانوں کو تحفظات کا وعدہ
تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے علیحدہ ریاست کی جدوجہد میں تمام طبقات کا ساتھ حاصل کرنے کی اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کی تھی ۔ پارٹی نے تلنگانہ میں مسلمانوں کے سب سے زیادہ پسماندہ ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ان سے کئی وعدے کئے تھے ۔ ان میں اوقافی جائیدادوں کا تحفظ اور قبضوں کی برخواستگی کے علاوہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا وعدہ سب سے اہم تھا ۔ یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف ریاست تلنگانہ بلکہ سارے ہندوستان میں مسلمان انتہائی پسماندگی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ سرکاری ملازمتوںمیں ان کا تناسب بتدریج گھٹتے ہوئے ختم ہونے کے قریب ہوگیا ہے ۔بڑے کاروبار میں مسلمان کہیں نظر نہیں آتے ۔ خود روزگار اسکیموں کیلئے حکومت کی جانب سے جو قرض دئے جاتے ہیں ان میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم ہے ۔ بینکس کی جانب سے مسلمانوں کو قرضہ جات کی فراہمی میں کئی رکاوٹیں ہیں ۔ انہیں حصول تعلیم میں مسائل کا سامنا ہے ۔ یہ صورتحال تلنگانہ تک محدود نہیں ہے ۔ ملک کی شائد ہی کوئی ریاست ایسی ہوگی جہاں مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر نہ ہو ۔ جسٹس راجندر سچر کی قیادت والی کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت زار کے تعلق سے تفصیلی رپورٹ مرکزی حکومت کو پیش کی تھی ۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان پسماندہ طبقات سے بھی پچھڑی ہوئی حالت میں ہیں ۔ ایسے میں جب ٹی آر ایس نے مسلمانوں کو علیحدہ ریاست میں 12 فیصد تحفظات کا وعدہ کیا تو مسلمانوں نے خوشی کے ساتھ اس وعدہ پر اعتبار کیا تھا اور کھلے ذہن کے ساتھ سارے تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا جس کے نتیجہ میں ٹی آر ایس کو ریاست میں اقتدار حاصل ہوا ۔ اسے اپنے اقتدار کیلئے کسی بھی جماعت کی تائید کی ضرورت تک نہیں رہی ۔ ریاست بھر کے مسلمانوں نے کانگریس سے دوری اختیار کرلی ۔ بی جے پی سے اتحاد کے باعث تلگودیشم بھی مسلمانوں کے ووٹوں سے محروم ہوگئی تھی اور ٹی آر ایس نے 12 فیصد تحفظات کا نعرہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ ریاست میں حکومت کے قیام کو 9 ماہ کا وقت گذر چکا ہے لیکن اس تعلق سے ابھی تک کوئی سنجیدہ عملی کوشش حکومت نے نہیں کی ہے ۔
تلنگانہ اسمبلی کے پہلے بجٹ اجلاس سے گورنر نرسمہن نے خطاب کیا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس خطبہ میں مسلمانوں کی امیدوں کو پورا نہیں کیا ہے ۔ اس خطبہ میں مسلمانوں کو تحفظات کے وعدہ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ گورنر کے خطبہ میں کئی مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ پسماندہ طبقات کیلئے دئے جانے والے تحفظات اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے رقومات و دیگر اقدامات کی تفصیل گورنر کے خطبہ میں پیش کی گئی ۔ تاہم مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا تذکرہ تک کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا ۔ ٹی آر ایس حکومت کا یہ اقدام مسلمانوں کی صفوں میں مایوسی کا باعث بن سکتا ہے ۔ جو مسلمان ساری ریاست میں ٹی آر ایس کے ساتھ ہوئے تھے انہیں پارٹی کے اقتدار سے کچھ امیدیں تھیں ۔ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ اپنے وعدوں کو عملی شکل دیتے ہوئے مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کیلئے سنجیدگی سے اقدامات کرینگے اور اس راہ میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھیں گے تاہم گورنر کے خطبہ میں اس کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا ہے جس سے نہ صرف مسلمانوں میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے بلکہ اس وعدہ کی تکمیل کے تعلق سے ٹی ار ایس حکومت کی سنجیدگی پر بھی سوالیہ نشان پیدا ہو رہے ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ آیا ٹی آر ایس نے بھی محض مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے سر سری انداز میں تو تحفظات کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ ۔
چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ اور ان کے کابینی رفقا اور ٹی آر ایس کے ذمہ داروں کو اس انتہائی اہم ترین مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہیں بہرصورت مسلمانوںکو تحفظات کی فراہمی کو یقینی بنانے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ انہیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ریاست میں مسلمانوں کی حالت انتہائی پسماندہ ہے اور نئی ریاست میں ان سے انصاف کی ضرورت ہے ۔ یہ انصاف اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب ان کی سماجی ‘ تعلیمی اور معاشی حالت کو سدھارا جاسکے ۔ یہ سدھار مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے ذریعہ ہی لایا جاسکتا ہے اور ایسا کرنا ریاستی حکومت کا ذمہ بھی ہے ۔ چونکہ ٹی آر ایس نے انتخابات کے دوران یہ وعدہ بھی کیا تھا اس لئے اسے دوسری جماعتوں کی روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے اس وعدہ کی تکمیل کے تئیں اپنی سنجیدگی کا ثبوت دینا ہوگا تاکہ مسلمانوں میں مایوسی کو دور کیا جاسکے ۔