مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے ‘ جملہ تحفظات کا از سر نو تعین ضروری

حکومت مسلمانوں سے وعدوں کی تکمیل پر وائیٹ پیپر جاری کرے ‘ محض اعلانات ناکافی ۔ صدر مسلم شبان مشتاق ملک

حیدرآباد۔/24جنوری، ( سیاست نیوز) صدر تحریک مسلم شبان جناب مشتاق ملک نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے وعدہ پر عمل آوری کیلئے ریاست میں موجودہ تحفظات کے ازسر نو تعین کا مطالبہ کیا اور کہا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں تمام طبقات کو حاصل موجودہ تحفظات کے از سر نو تعین کے ذریعہ ہی مسلمانوں کو زائد تحفظات فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بل یا قرارداد کی منظوری کے ذریعہ مرکزی حکومت کو روانہ کرتے ہوئے دستور کے 9 ویں شیڈول میں تحفظات کی شمولیت کا وعدہ مضحکہ خیز ہے اس طریقہ کار سے تحفظات کی فراہمی ہرگز ممکن نہیں ہوپائے گی۔ نئی ریاست تلنگانہ میں حکومت کمزور طبقات کی آبادی کی بنیاد پر موجودہ تحفظات کا ازسرنو تعین کرسکتی ہے۔ انہوں نے مسلم تحفظات، اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور گذشتہ ڈھائی سال میں مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر حکومت سے وائیٹ پیپر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ محمد مشتاق ملک نے کہا کہ مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے حکومت پر دباؤ بنانے اور مسلم نوجوانوں میں شعور بیداری کیلئے بہت جلد یوتھ کنونشن منعقد کیا جائے گا۔ انہوں نے چیف منسٹر کو مشورہ دیا کہ وہ آندھرائی قائدین کی طرح مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش نہ کریں اور وعدوں پر عمل آوری میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان حقیقی معنوں میں 12 فیصد تحفظات کے انتظار میں ہیں اور اسمبلی میں قرارداد یا بل کی منظوری کے ذریعہ یہ ہرگز ممکن نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی برسراقتدار بی جے پی اور سنگھ پریوار تحفظات کے حق میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت مسلمانوں کو ہرگز تحفظات فراہم نہیں کرسکتی جہاں تک ٹاملناڈو کے تحفظات کا معاملہ ہے 9 ویں شیڈول میں شمولیت کے باوجود یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے۔ چیف منسٹر کو اپنے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی سطح پر قانون سازی کرنی چاہیئے جو ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کو موجودہ تحفظات کی ری شیڈولنگ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے بصورت دیگر اسمبلی میں بل کی منظوری محض ایک سیاسی تماشہ ہوگا۔ جناب مشتاق ملک نے کہا کہ چیف منسٹر نے اسمبلی سرمائی اجلاس میں مسلمانوں کیلئے کئی وعدے کئے جن میں اسلامک سنٹر کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وعدوں سے قبل حکومت کو یہ واضح کرنا چاہیئے کہ گذشتہ ڈھائی سال میں کتنے مسلمانوں کو ملازمتیں حاصل ہوئیں اور معاشی طور پر کتنے خاندان مستحکم ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اجمیر شریف میں تلنگانہ بھون کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن آج تک اس پر عمل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ایس ٹی اور کرسچن بھون کی تعمیر کا مسئلہ بھی زیر التوا ہے۔ صدر شبان نے کہا کہ وہ اسلامک سنٹر کے قیام سے متعلق چیف منسٹر کے جذبہ کا احترام کرتے ہیں لیکن انہیں آندھرائی قائدین کی طرح مسلمانوں کو صرف وعدوں پر ٹالنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر نے اقتدار سے قبل اعلان کیا تھا کہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اوقافی اراضی واقع منی کنڈہ کی سی بی آئی تحقیقات کراکے لگڑا پاٹی راجگوپال، ویپرو اور دیگر کمپنیوں سے وقف اراضی حاصل کی جائے گی لیکن اب گذشتہ دنوں چیف منسٹر نے اسمبلی میں بیان دیا کہ جو زمین الاٹ کردی گئی وہ جاچکی ہے اسی مقام پر جو کھلی اراضی ہے اسے وقف بورڈ کے حوالے کیا جائے گا۔ مشتاق ملک نے کہا کہ چیف منسٹر نے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرلیا ہے اور افسوس کہ مجلس کے فلور لیڈر نے خاموشی اختیار کرلی حالانکہ یہ مسلمانوں کی اوقافی جائیداد ہے حکومت کی ملکیت نہیں۔ اس اراضی میں مسلمانوں کو حصہ داری ملنی چاہیئے اور 800 ایکر خالی اراضی کو حوالے کرنا حکومت کیلئے کوئی دشوار کن مرحلہ نہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر جو وزیر مال بھی ہیں ان کی دستخط سے صرف ایک دن میں احکامات جاری ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لینکو ہلز کی اوقافی اراضی کے مسئلہ پر مسلمان کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔