نئی دہلی ۔ یکم ؍ اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) مسلم پرسنل لاء کے بارے میں متنازعہ ریمارک کے دوسرے دن صدرنشین پریس کونسل آف انڈیا مارکنڈے کاٹجو نے کہا کہ وہ کسی مذہب کے خلاف نہیں ہیں اور انہوں نے صرف ناانصافی کے بارے میں بات کی تھی۔ سابق سپریم کورٹ جج کاٹجو نے اپنے بلاگ پر لکھا کہ بعض لوگ مسلم پرسنل لاء پر ان کی حالیہ نکتہ چینی کا کچھ اور مطلب اخذ کررہے ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہیکہ وہ مسلمانوں یا اسلام کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے کئی دوست مسلمان ہیں اور میں تمام مذاہب بشمول اسلام کا احترام کرتا ہوں۔ وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ پورے سیکولر ہیں۔ کاٹجو نے کہا کہ جب کشمیر میں سیلاب آیا تو وہ پہلے شخص ہیں جو کشمیری عوام کی مدد کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور انہوں نے ہر ممکنہ مدد پہنچانے کی کوشش کی۔ انہوں نے غزہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں پر ہورہے مظالم پر بھی نکتہ چینی کی لیکن ان کا یہ موقف برقرار ہے کہ زانی عورت کو سنگسار کرنا انتہائی ظالمانہ کارروائی ہے۔ اسی طرح زبان سے ادا کئے گئے الفاظ کی بناء طلاق کو بھی وہ ناانصافی پر مبنی اور مسلم خواتین کے لئے امتیاز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف ہیں خواہ وہ ہندو سماج میں ہو یا مسلم سماج یا کسی اور سماج میں پائی جاتی ہو۔ کاٹجو نے کہا کہ انہوں نے ہندوؤں میں پائے جانے والے ذات پات کے نظام اور ہندو لاء (1955 سے قبل) پر بھی نکتہ چینی کی تھی۔ کاٹجو نے کل ایک پروگرام میں کہا تھا کہ وہ ملک میں یکساں سیول کوٹ کے حق میں ہے۔ مسلم پرسنل لاء ایک نامناسب لاء ہے۔ یہ ظالمانہ، موجودہ حالات سے غیر ہم آہنگ ہے کیونکہ اس میں عورت کو کمتر تصور کیا جاتا ہے۔ زبانی طلاق کی صرف مرد کو اجازت دی گئی ہے۔