ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
مسلمانوں کا قتل عام
دنیا بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی طاقتیں اپنے مقاصد کو وسعت دیتی جارہی ہیں۔ کرۂ ارض کی ہر انسانی زندگی کو آزادی سے جینے کا حق ہے لیکن بعض فرقہ پرست عناصر دنیا بھر میں مسلمانوں کو انسان تصور کرنا ترک کردیا ہے اس لئے ایک ملک کے بعد دوسرے ملک میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا جارہا ہے۔ نقل مکانی، بے سرو سامانی کیفیت کے ساتھ بھٹکتے مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی ٹیمیں انسانیت کا قتل عام روکنے میں ناکام ہوچکی ہیں تو جمہوریہ وسطی افریقہ میں بھی اقوام متحدہ کی قیام امن افواج مسلمانوں کی نسل کشی کو روکنے میں بُری طرح ناکام ہے۔ وسطی افریقہ میں کئی ہفتوں سے مسلم کش فسادات ہورہے ہیں۔ فرقہ پرست عیسائی ٹولے ہتھیاروں کے ساتھ گھوم کر مسلمانوں کو چن چن کر مارنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ حکومت، بین الاقوامی فوج اور انسانی حقوق کے علمبردار فسادات کو روکنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے سینئر عہدیدار نے افسوسناک طور پر یہ بیان دیا کہ جمہوریہ وسطی افریقہ میں مسلمانوں کا منظم قتل عام کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ انھیں اپنے گھربار، کھیتی، کاروبار سب چھوڑ کر نقل مکانی کے لئے مجبور کیا جارہا ہے۔ اس ملک سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے لئے کی جارہی کارروائیوں کو روکنے کے لئے اب تک کوئی بڑی طاقت آگے نہیں آئی۔ مغربی ممالک کی نظروں کے سامنے یہ مسلم کش فسادات ہورہے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ مغربی ملکوں کے سربراہوں کی آنکھوں پر مطلب کی پٹی لگی ہوئی ہے۔ جو قائدین مسلم کش فسادات کے خلاف آواز اُٹھارہے ہیں اِنھیں بھی گولی مار دی جارہی ہے۔ اس طرح گزشتہ دنوں مسلم آبادی پر حملوں کے خلاف تقریر کرنے کی پاداش میں رکن پارلیمنٹ جین ایمنیوئل نجاروا کو بھی مسلح غنڈوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ یہ کارروائی مسلمانوں کا ساتھ دینے والوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش ہے اس لئے جمہوریہ وسطی افریقہ میں کوئی بھی طاقت مسلمانوں کو بچانے کے لئے آگے نہیں آرہی ہے۔ مگر بیرونی طاقتوں کی خاموشی بھی صدمہ خیز ہے۔ گزشتہ سال فوجی بغاوت کے بعد سے یہاں عیسائیوں اور مسلمانوں میں تصادم ہورہا ہے۔ اِن حملوں میں ہزاروں مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں۔ عیسائیوں کی دہشت گرد ٹولیاں مسلم آبادیوں کو تباہ کررہی ہیں۔ افریقہ کے اس غریب ترین ملک میں مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مقامی مسلمانوں کو اپنی جان کی قیمت اس لئے چکانی پڑرہی ہے کیوں کہ گزشتہ سال مسلمانوں کے مسلح باغی گروہ سیلیکا نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے لیڈر مشعل چنودیا نے پہلی بار مسلم اقتدار سنبھالا تھا لیکن عالمی دباؤ اور کشیدگی میں اضافہ کے پیش نظر اُنھوں نے ایک ماہ پہلے ہی استعفیٰ دے دیا تھا۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھی مسلم دشمنی کو مزید بھڑکاتے ہوئے عیسائی گروپس نے قتل عام کی عادت بنالی۔ اس کشیدگی پر قابو پانے کے لئے اگرچیکہ فرانس اور افریقی یونین نے اپنی افواج روانہ کئے ہیں لیکن یہ فوج بھی تیزی سے ہوئی سنگین صورتحال پر قابو میں نہیں کرسکی۔ اس ملک کی صدر خاتون ہے۔ اُنھوں نے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے سخت کارروائی کرنے کا انتباہ دیا ہے۔ صدر کیتھرین سانبا یاترا نے مسلح عیسائی گروپس سے راست جنگ کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس سے اُمید پیدا ہوئی ہے کہ اب مسلم زندگیوں کا تحفظ ہوسکے گا۔ اینٹی بالاکا نامی دہشت گرد گروپ ایک خاص مشن کے لئے تشکیل دیا گیا تھا لیکن یہ گروپ قاتل بن گیا ہے جو لوٹ مار اور تشدد برپا کررہا ہے۔ عیسائیوں کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے صدر کیتھرین کو سختی کے ساتھ فوجی کارروائی کرنی ہوگی۔ کئی مسلمان پڑوسی ریاستوں کیمرون اور چاؤ کی طرف نقل مکانی کرگئے ہیں۔ انھیں واپس ان کے ملک لانے کے لئے وسطی افریقہ میں امن کو یقینی بنانا ہوگا۔ جن مسلمانوں نے نقل مکانی کی ہے وہ خوردنی اشیاء کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے چلے جانے سے وسط افریقہ میں غذا کی کمی اور انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔ حکومت کو اس سنگین صورتحال کا فوری نوٹ لیتے ہوئے فوری سکیورٹی کے سخت اقدامات کرنے چاہئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی موجودگی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کے قتل عام کا تماشا دیکھ رہی ہے اور رپورٹ تیار کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلم بستیوں میں خون ریز حملوں کی وجہ سے کئی بستیاں خالی ہوگئی ہیں۔ جمہوریہ وسطی افریقہ سے بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کا انخلاء روکا نہیں گیا تو انسانی بحران سنگین رُخ اختیار کرجائے گا۔ انسانوں کا تحفظ کرنے کو ترجیح دی جائے تو عیسائی ۔ مسلم فرقہ وارانہ فسادات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ جن علاقوں میں غنڈے سرگرم ہیں وہاں فوج کشی کی جائے تو ان کے حوصلے پست ہوں گے۔ کسی بھی ملک میں فرقہ وارانہ بربریت تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ دراصل کسی بھی ملک میں خاص مقصد یا تعصب پسندی کی خاطر عوام کی جان سے کھیلنے کی کارروائیاں بھیانک ہوتی ہیں۔ اس کا سدباب کرنا ضروری ہے۔ انسانیت کے خلاف جاری جرائم کو روکنے کے لئے تمام انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کو آگے آنا ہوگا۔ جمہوریہ وسطی افریقہ کے صدر مقام بنگوئی میں فرانسیسی اور افریقی یونین کی موجودگی کے باوجود عام مسلمانوں کا قتل افسوسناک ہے۔
اروند کجریوال کا استعفیٰ
دہلی میں عام آدمی پارٹی حکومت کو بے بس کرنے کے لئے تمام رشوت خور عناصر نے اپنا اپنا کردار بڑی حکمت سے ادا کیا ہے۔ جن لوک پال بِل کی ناکامی کے بعد حسب ارادہ اروند کجریوال اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا۔ اس اقدام کے پیچھے جن چہروں کی نشاندہی کی گئی اس میں کانگریس اور بی جے پی شامل ہیں۔ مکیش امبانی، ہیں، نریندر مودی ہیں اور رشوت کھانے والی طاقتیں ہیں۔ اروند کجریوال کی ٹیم رشوت کے خلاف جس تن دہی و دیانتداری سے کام کررہی تھی اس سے اُمید بندھ گئی تھی کہ بدعنوانیوں کے خاتمہ کا مثبت نتیجہ سامنے آئے گا لیکن کجریوال نے بیچ راہ میں ہی دم توڑ دینے والا عمل دکھا کر مخالف عام آدمی پارٹی سیاسی ٹولوں کو خوش کردیا ہے۔ عموماً اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ہر چیف منسٹر اقتدار پر ٹکے رہنے کے بہانے تلاش کرتا ہے لیکن کجریوال روز اول سے ہی اقتدار چھوڑنے کے بہانے تلاش کررہے تھے۔ خراب سسٹم کو درست کرنا، بُرائیوں کو دور کرنے کے لئے جدوجہد، جذبہ و استقلال کی بہت اہمیت ہوتی ہے مگر اروند کجریوال کے اطراف ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ ان کا جذبہ سرد پڑنے لگا۔ جس شخص کو 2006 ء میں حق معلومات قانون کو مؤثر بنانے کے عوض میگسسے ایوارڈ ملا اور آر آر ایس IRS سے استعفیٰ دینے کے بعد اپنے میگسیسے ایوارڈ کی رقم کو این جی او کے فنڈ میں دیا اس نے بی جے پی، ریلائنس اور کانگریس کی بدعنوان سیاست سے نبرد آزما ہونے کی ہمت دکھائی۔ اچانک کرپشن کے طاقتور ٹولے کے آگے اپنی حکمت عملی کو دو زانوں کردیا۔ آیا قومی سیاست میں سرگرم رول ادا کنے کی تیاری کے حصہ کے طور پر سب کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں تو پھر آئندہ لوک سبھا انتخابات میں ملک کے عوام عام آدمی پارٹی کو کس حد تک کامیاب بنائیں گی۔ یہ عام آدمی پارٹی کی انتخابی حکمت عملی پر منحصر ہے۔ دہلی کی 49 روزہ حکومت کو ختم کرنے میں کس کا اہم رول ہے یہ غور کرنا عوام کا کام ہے۔ ہندوستان کے سماجی سیاسی ٹھیکیداروں (مرکزی حکومت، دہلی کے لیفٹننٹ گورنر وغیرہ) اور مجرموں نے لوک پال بِل کو منظور ہونے نہیں دیا لہذا عام آدمی پارٹی کے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تازہ انتخابات کرواکر عوام کا بھاری خط اعتماد حاصل کرے۔ شعوری سیاست کا تقاضہ یہی ہے کہ بدعنوانیوں کو ہرگز برداشت نہ کیا جائے۔