مسلمانوں پر مظالم کیخلاف اوباما کا انتباہ

کوالالمپور ۔ /27 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) صدر امریکہ بارک اوباما نے دنیا کی مسلم دشمن طاقتوں کو انتباہ دیا اور کہا کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والے نسلی اور مذہبی جنگ کو بھڑکانے کا کام کررہے ہیں ۔ میانمار میں ہونے والے واقعات انتہائی بدبختانہ اور افسوسناک ہے ۔ انہوں نے میانمار کی فوجی حکومت کی زیرقیادت ملک میں سیاسی اصلاحات لائے جانے کی ستائش کرتے ہوئے انہوں نے اس اقدام کو جرأت مندانہ عمل قرار دیا لیکن انہوں نے میانمار میں برسوں بعد بحال کی گئی جمہوریت کو اپنے ہی ہاتھوں سے نوچنے کے واقعات پر خبر دار کیا ۔ مسلم اکثریتی والے ملک ملائیشیا کا دورہ کرنے کے دوران ٹاؤن ہال میں منعقدہ ایک اجلاس میں صدر امریکہ بارک اوباما نے کہا کہ اگر مسلم آبادی کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی تو میانمار بھی باقی نہیں رہے گا ۔ اوباما نے رکھینے اسٹیٹ میں روہنگیا میانمار کے مسلم اقلیت کا حوالہ دیا ، جہاں پر بدھسٹ شہریوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔

یہ خطرناک عمل میانمار کی جمہوریت کو تباہ کردے گا ۔ میانمار یا دنیا کے کسی ملک میں مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کو انتباہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خطرناک عمل روک دیا جانا چاہئیے ۔ کسی ملک میں جمہوریت کو مختلف نسلی گروپس اور مختلف مذہبی طاقتوں کی جانب سے کی جانے والی ظلم و زیادتی جنگ کے مترادف ہے ۔ میانمار کی صورتحال اسی کا مظہر ہے۔ خاص کر میانمار کے اندر مسلم اقلیت کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے جبکہ مسلم اقلیت کے مفادات کا تحفظ کرنا ضروری ہے ۔ حالیہ برسوں میں میانمار کے اندر جو برما سے بھی جانا جاتا تھا ۔ مذہبی بدامنی پھیلائی گئی اور 2012 ء سے یہاں پر تشدد کے واقعات میں سینکڑوں مسلمان ہلاک ہوئے ہیں ۔ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں ۔

اوباما نے نومبر 2012ء کو میانمار کا دورہ کیا تھا ۔ ان کے نظم و نسق نے حکومت کی بھرپور حمایت کی پیشکش کی تھی ۔ امریکہ ایک عرصہ سے اپوزیشن لیڈر آنگ شانگ سوچی کی پرزور حمایت کرتے آرہا ہے ۔ ملک کے دستور میں ترمیم کی کوششوں کی بھی اس نے حمایت کی ہے ۔ اوباما نے یوکرین اور مشرق وسطیٰ جیسی صورتحال کے تناظر میں ایشیا پیسیفک میں اپنی حکمت عملی کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہے ۔ اوباما جو جنوب مشرقی ایشیاء کے اس ملک کا تین روزہ دورہ کررہے ہیں تقریباً 5 دہوں بعد امریکہ کے صدر کا یہ پہلا دورہ ہے ۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکہ ساری دنیا میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتا ہے ۔ یوکرین میں جو کچھ ہوا ہے یا مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہا ہے ہم اس کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔