مرکزی حکومت کی نامزد کمیٹی کی سفارش پر مسلم پرسنل لا بورڈ کا اعتراض
نئی دہلی۔/31مارچ، ( سیاست ڈاٹ کام )مذہبی اقلیتوں کے بشمول مسلمانوں میں شادیوں ، طلاق اور تحویل سے متعلق عائلی قوانین کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے مرکزی حکومت کی نامزد کمیٹی نے یکسر اور یکطرفہ طلاق ثلاثہ اور کثرت ازدواج پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ سپریم کورٹ نے اترا کھنڈ کی ایک خاتون ساحرہ بانو کی ایک عرضی پر سماعت کے دوران 28 مارچ کو مرکز کو یہ ہدایت دی تھی کہ اندرون 6ماہ رپورٹ پیش کرے ۔ کاشی پور اترا کھنڈ کی متوطن اس خاتون کو 2015میں طلاق دے دی گئی تھی جس نے سپریم کورٹ میں جاریہ سال ایک رٹ عرضی پیش کرتے ہوئے مسلمانوں میں مروج ایک سے زائد شادیوں، طلاق ثلاثہ ( طلاق بدعت ) اور نکاح حلالہ کو چیلنج کیا تھا۔ مذکورہ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ طلاق کی وجہ سے خواتین اپنی شادی شدہ زندگی کے بارے میں انتہائی غیر محفوظ ہوجاتے ہیں جس کے پیش نظر قانون تنسیخ مسلم شادی 1939 میں ترمیم کی تجویز پیش کی ہے۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس یویو للیت پر مشتمل بنچ نے وزارت اقلیتی بہبود سے کہا کہ ساحرہ بانو کی عرضی پر جواب داخل کرے۔
اس خاتون نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ان کے والدین نے شادی کے موقع پر جہیز دیا تھا لیکن ان کے شوہر اور سسرالی رشتہ دار ہراساں کرتے ہوئے انہیں ایسی ادویات دیتے تھے جس کے استعمال سے ان کی یادداشت کمزور اور بے ہوشی کے عالم میں رہتی تھیں ۔ اس خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر نے ایک دن اچانک طلاق دے دی۔درخواست گذار نے یہ بھی استدلال پیش کیا کہ طلاق ثلاثہ ، حقوق انسانی اور صنفی مساوات کے جدید اُصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اور یہ اسلامی عقائد کا حصہ بھی نہیں ہے کیونکہ سعودی عرب، پاکستان اور عراق جیسے ممالک میں اس طریقہ کار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مناسب افہام و تفہیم کے بغیر طلاق بدعت کے ذریعہ یکسر ازدواجی رشتہ منقطع کردینے سے وقار کے ساتھ زندگی گذارنے سے متعلق مسلم خواتین کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔دریں اثناء آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ایک عرضی داخل کرتے ہوئے کہا کہ مسلم پرسنل لاء کا تعلق مسلم معاشرہ سے ہے جبکہ شادی بیاہ، طلاق اور نان و نفقہ کا معاملہ عام قوانین کے دائرہ کار میں نہیں آتا، تاہم مسلم خواتین کو مسلم ویمن ایکٹ 1986ء کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ بورڈ کے ایک رکن کمال فاروقی نے بتایا کہ طلاق ثلاثہ یا کثرت ازدواج پر پابندی کی تجویز ناقابل قبول ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے مذہبی اُمور میں حکومت کو مداخلت کی اجاز دی جائے گی۔واضح رہے کہ یو پی اے حکومت نے فبروری 2012ء میں یہ کمیٹی تشکیل دی تھی بعد ازاں 2013ء میں تشکیل جدید کی گئی۔