محمد قیام الدین انصاری کوثر
کائنات کی ہر شئے کو پیدا کرنے والی اور اسکو کو کمال بخشنے والی ذات نے اس کو فطری حسن و جمال بھی بخشاہے، وہ باکمال ذات
جو ایسے جمال کی مالک ہے جس کی کنہہ و حقیقت تک کسی کی رسائی نہیں ’’اللہ جمیل و یحب الجمال‘‘ کے مصداق وہ جمال کو پسند فرماتا ہے، اسلئے اس نے اپنی صناعی و کاریگری سے کائنات کے ذرہ ذرہ کو کمال بھی بخشا ہے اور جمال بھی، البتہ فرق یہ ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کے صفات کمال و جمال کو کبھی کوئی زوال نہیں اور ساری کائنات کا کمال و جمال ناتمام و ناقص بھی ہے اور رو بہ زوال بھی،اس کائنات کی حسین وقیمتی اشیاء میں ہیرے جواہرات بھی ہیں، موتی و مونگے بھی ، زمرد ومرجان بھی، حسن پسند طبیعتیں کائنات کے حسن و جمال سے جہاں مسحور رہتی ہیں وہیں قیمتی و حسین ہیرے و جواہرات کو پسند کرتی ہیں چونکہ وہ زیب و زینت کا مرقع اور حسن و جمال کا مظہر ہوتے ہیں، ذوق جمال کی چاہت ان کو پانے پر مجبور کرتی ہے، حسن و رعنائی پسند مزاج اس کا استعمال کرکے اپنے حسن کو دوبالا کرلیتے ہیں، قدرت کے حسن و جمال، صناعی و کاریگری کے نادر روزگار یہ قیمتی موتی مونگے صرف ظاہری حسن و جمال میں اضافہ کے ہی کام میں نہیں آتے بلکہ صدہا امراض میں یہ دوا کا کام بھی کرتے ہیں، ماہر حکماء ان کا قیمتی ادویات میں استعمال کرتے ہیں اور حق سبحانہ نے بہت سے امراض سے اس میں شفا رکھی ہے۔ یہ موتی و مرجان تو سمندر کی دنیا میں پرورش پاتے ہیں، کائنات کی اس حسین وادی میں سمندروں کی ایک عظیم دنیا آباد ہے۔ میٹھے اور کھارے پانی کی نہریں ایک ساتھ بہتے ہوئے جہاں جاکر گرتی ہیں اس جگہ سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں، گویا آب شور و آب شیریں کا جہاں منبع ومخزن ہوتا ہے وہاں سے یہ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ بعضوں کی تحقیق یہ ہے کہ یہ کھارے پانی کے سمندروں سے نکلتے ہیں اور میٹھے پانی کے ذخیروں سے بھی کیونکہ حق سبحانہ نے یہاں تثنیہ کی ضمیر ’’منھما‘‘ بیان فرمائی ہے لیکن دریاؤں کی روانی کی وجہ ان کا دریاؤں میں پائے جانے کے باوجود پانا آسان نہیں ہوتا، الغرض جو بھی ہو ان قیمتی اشیاء کا پانی میں پرورش پانا اور پانی کے ذخیروں سے دستیاب ہونا ثابت ہے۔
موتی کیسے بنتے ہیں یہ بھی قدرت خداوندی کا ایک حسین کرشمہ ہے، اسکی قدرت و سلطنت، اسکی طاقت و قوت اور اسکی توحید و یکتائی کا جلوہ یہاںبھی دعوت دید دے رہا ہے اور کئی ایک غوروفکر اور تدبر کے دروازے کھول رہا ہے، یوں تو آسمان سے بارش برستی ہے جو کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور ہر ذی حیات کی پیاس و تشنگی بجھاتی ہے، یہ بارش کے قطرات بھی ہیرے جواہرات سے کیا کم ہیں،آسمان سے بارش کا برسنا رک جائے، پانی کے ذخائر خشک ہوجائیں تو پھرقیمتی ہیرے جواہرات اور موتی و مونگے تشنگی بجھانے کے کچھ بھی کام نہیں آسکتے، اسلئے آسمان سے برسنے والی بارش کا ہر قطرہ حق سبحانہ کا عظیم تحفہ اور قدرت خداوندی کا ایک عجیب مظہر ہے، جہاں بارش برستی ہے وہاں مردہ زمینیں زندہ ہوجاتی ہیں، خس و خاشاک ہوا ہوجاتے ہیں اور ساری زمین سبزہ زار بن جاتی ہے لیکن قدرت خداوندی کا ایک اور کرشمہ دیکھئے کہ آسمان سے ایک ایسی خاص بارش بھی نازل ہوتی ہے جن میں ہیرے جواہرات پیدا کرنے کی صفت ودیعت کردی گئی ہے، تحقیق یہی ہے کہ بارش کے یہ قطرات قدرت خداوندی سے وہاں برستے ہیں جہاں کھارے و میٹھے پانی کا سنگم ہوتا ہے اور جو دونوں سمندروں کا مخزن و منبع ہوتے ہیں وہیں سیپیاں اپنے منہ کھولے آسمان کی طرف کھڑی ہوجاتی ہیں اور بارش کے وہ قیمتی قطرے خوش نصیبی سے اگر اس کے بطن میں پہنچتے ہیں تو وہ سیپ بند ہوکر اس آب شور و آب شیریں کے مخزن کے بطن کی تہہ تک پہنچ جاتی ہیں پھر ایک مدت کے بعد وہ پانی کے قطرات صدف کے بطن میں پرورش پاکر لاقیمت موتی بن جاتے ہیں اور بہت سی وہ سیپیاں بھی ہوتی ہیںجنہوں نے آسمان کی طرف رخ کرکے اپنا منہ ضرور کھول رکھا ہوگا لیکن بارش کے وہ قیمتی قطرات جب ان کے نصیب میں نہیں ہوتے ہیں تو وہ نعمت خداوندی سے محروم رہتی ہیں، سمندر کی تھپیڑیں اور اسکی موجیں ان کو ساحل پر لا پھینکتی ہیں، فرق یہ ہے کہ جن سیپیوں نے بارش کے ان قطرات کو اپنے بطن میں سمویا ہے وہ سمندر کی گہرائیوں میں ڈوبنے کے باوجود ساحل مراد سے جا لگتی ہیں اور بارش کے ان قیمتی قطرات سے محروم سیپیاںسمندر کی موجوں اور تھپیڑوں کی وجہ ساحل پر پہنچ کر بھی نامراد ہی رہتی ہیں۔
عارفین نے ان مادی حقائق سے ورے ہوکر کچھ روحانی حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے، مادی دنیا کے ماہرین جہاں سمندر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوکر صدف کے جگر میں پلنے والے قیمتی ہیرے موتی پالیتے ہیں وہیں روحانی دنیا کے حکماء و محققین علم و عرفان کے سمند ر میں غرق ہوتے ہیں اور اس سے روحانیت کے قیمتی ہیرے و جواہرات سے اپنے دل کے صدف کو معمور کرلیتے ہیں، عارفین نے دل کو صدف سے تعبیر کیا ہے جو انسانی سینہ کے سمندر میں محفوظ ہوتا ہے، الٰہی تعلیمات و نبوی ہدایات کی جب روحانی برسات ہوتی ہے توجن کے قلوب کے یہ صدف منہ کھولے ہوئے ان قیمتی روحانی قطرات وحی کو اپنے جگر میں سمو لیتے ہے، ایسے قلوب باصفا کی مثال اس سیپیوں کی سی ہوسکتی ہے جو خاص بارش وحی کے قطرات کو اپنے اندر سمو کر ایمان و ایقان کے موتی بناتی ہیں، ظاہر ہے اس طرح کے قلوب ہی ساحل مراد پر پہنچتے ہیں یعنی دین و دنیا کی سعادتیں انکا نصیبہ بنتی ہیں ، ارشاد باری ہے: ’’جو کوئی نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہوکہ عورت جبکہ وہ مومن ہوں، ہم انہیں یقینا (دنیا کی) خوشگوار زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا اچھا و بہتر بدلہ بھی ضرور ضرور ان کو دیں گے‘‘(النحل؍۹۷)۔ اس آیت پاک میں حیات طیبہ سے مراد دنیا کی خوشگوار اور پرسکون زندگی ہے، جس کے دل کا صدف معرفت الٰہی سے سرشار اور ایمان کے انوار سے معمور ہو وہ ایک اعلیٰ کردار کا انسان ہوتا ہے، اس کی مومنانہ و صالحانہ صفات اور اس کی پرہیزگارانہ و متقیانہ زندگی گزارنے کی روش، طاعت و عبادات، ریاضت و مجاہدات سے دلبستگی، زہد و قناعت کی پسندیدگی اسکے سینۂ صافی کو ایمانی حلاوت و شیرینی سے بھر دیتی ہے اور ایسی تسکین کا سامان ہوتا ہے کہ دنیا جہاں کے تعیشات سے محرومی کے باوجود خوشگوار زندگی کے تجربات کا اس کو مشاہدہ ہوتا رہتا ہے اور اسکے بعد والے جملے یعنی ان کے نیک اعمال کا اچھا بدلہ ضرور ضرور دیں گے سے مرادآخرت کی نعمتیں اور اسکی سرفرازی ہے، جہاں دائمی نعمتیں آنکھوں کو دائمی ٹھنڈک بخشیں گی اور روح کو شاداں رکھیں گی۔اس کے برعکس وہ قلوب جو بصورت صدف تو رہے لیکن آسمانی ہدایات و تعلیمات اور نبوی ارشادات کی پاکیزہ و لطیف انوار کی بارش کے قطرات کو اپنے دل کے صدف میں نہیں سمویا بلکہ شرک و کفر سے آلودہ، اوہام وخرافات فرسودہ، حکایات فاسدہ سے بھری ہوئی گدلہ پانی جیسی بارش کے قطرات سے دل کی دنیا کو گدلہ و میلا کرلیا، ظاہر ہے ا ن کے اعضاء و جوارح پر وہی اثرات مرتب ہونگے جو دل کے گوشہ میں ناحق و باطل تصورات کی شکل میںجگہ بنالئے تھے ان کیلئے اللہ سبحانہ کا کوئی وعدہ نہیں ہے، دنیا مل بھی جاتی ہے اور دنیا کے تعیشات ان کو میسر آبھی جاتے ہیں تب بھی وہ خوشگوار زندگی سے محروم ہی رہتے ہیں، دنیا کی زندگی اور اسکے تعیشات سے سب کچھ پاکر بھی نہ پانے کا شدید احساس ان کے دامن دل سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ الغرض آسمان سے برسنے والی مادی بارش رحمت جہاں دنیا میں زندگی وروئیدگی کی باغ و بہار لاتی ہے ا ور قیمتی لولؤ ومرجان بخشتی ہے وہیں معرفت الٰہی کے انوار کی معنوی بارش دل کی دنیا کو انوار ایمان کے جلوؤں سے لالہ زار بناتی ہے۔