محمد قیام الدین انصاری کوثر
محبت اور رحمت خدائی صفات ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوق میں ان صفات کی جلوہ گری دیکھنا چاہتا ہے اور صرف ان انسانوں سے محبت فرماتا ہے، جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔ محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مخلوق اللہ تبارک و تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب وہ شخص ہے، جو اس کے کنبہ سے احسان کرے‘‘۔ اخوت کا جذبہ بیدار ہو تو حقوق العباد کی ادائیگی میں سہولت رہتی ہے۔ تصور محبت و رحمت عالمگیر ہے۔ اس محبت میں (جو فاتح عالم کہلاتی ہے) ملک و قوم کی تخصیص نہیں ہے۔ سہولت کے لئے محبت اور رحمت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک ہے رحمت عام اور دوسرا ہے رحمت خاص۔ مکارم اخلاق میں جذبۂ رحم خاص مقام رکھتا ہے، خاص طورپر جب بلاامتیاز ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا، جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ پھر ارشاد فرمایا: ’’رحم کرنے والوں پر رحم کیا جاتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی روشنی میں ہم اگر ایک دوسرے سے بے لوث خلوص اور محبت سے پیش آتے رہیں گے تو دنیا امن و شانتی کا گہوارہ بن جائے گی۔ رحم کا جذبہ انسانوں کے لئے ہی وقف نہیں، بلکہ یہ جذبۂ ترحم فیض عام ہوتا ہے اور حیوانات بھی اس سے مستفیض ہوتے ہیں اور اس جذبہ کا اظہار انسان کو ہر ذی روح کے ساتھ رحم کرنے پر ثواب عظیم سے دو چار کردیتا ہے۔
رحمت خاص کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ایک شخص کسی دکھ درد میں مبتلا ہو تو دوسرا یوں محسوس کرے کہ اسے بھی ایسی ہی اور اتنی ہی تکلیف ہے، بطور خاص مسلمان کثیر القلب ہونے کے باوجود یک جان ہوتے ہیں۔ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور دوسروں کی راحت دیکھ کر وہ خود بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’تم مؤمنوں کو آپس میں رحم و محبت اور ہمدردی کے معاملے میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے۔ اگر ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور مرض بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ اس کو کہتے ہیں دِلی محبت۔ اخوت کے رشتے، خون کے رشتوں کو بسااوقات ماند کردیتے ہیں۔ اس جذبۂ اخوت کو مسلمان برقرار رکھنا چاہیں تو آپس میں اتحاد پیدا کریں اور ہر حال میں ایک اور نیک بن کر رہیں۔
وحدت کی عمارت میں اختلاف سے دراڑ پڑتی ہے اور ایسی کسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ علاج تجویز فرمایا کہ ’’پس اگر تم میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو‘‘ (سورۃ النساء۔۵۹) یعنی مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان ہر تنازعہ کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جائے۔ سارے مسلمانوں کا تعلق ایک برادری سے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ (سورۃ الحجرات) لہذا بھائیوں کے درمیان تعلقات درست کرنا چاہئے اور یہ تسبیح کے دانے جو کبھی ایک دھاگے میں پروئے ہوئے تھے، لیکن اب ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں، وقت کا تقاضہ ہے کہ ان کو ایک دھاگے یعنی قرآن و سنت کے دھاگے میں پھر منسلک کردیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ہم مسلمان ایک دوسرے کے لئے دیوار کی اینٹوں کی طرح ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتی ہے‘‘۔
اخوت کا پہلا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے دوسرے بھائی کی جان و مال کا احترام کریں۔ جان اللہ تبارک و تعالیٰ کا عطیہ ہے، لہذا صرف وہی ذات اسے کسی شکل میں واپس لے سکتی ہے۔ کسی شخص کو کسی شخص کا سلسلۂ حیات منقطع کرنے اور خالق کائنات کے کام میں دخل انداز ہونے کی اجازت نہیں، یہاں تک کہ انسان خود بھی اپنی زندگی کو خودکشی کے ذریعہ ختم نہیں کرسکتا، ورنہ یہ حرام موت متصور ہوگی، اس لئے دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقاء اس بات پر ہے کہ ہر انسان دوسرے کا احترام کرے۔
اخوت کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ جان کے بعد انسان کی دوسری عزیز چیز اس کا مال اور اس کی آبرو ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اپنے مال و آبرو کے تحفظ کا حق دیا ہے اور جو شخص جان و مال اور آبرو کی حفاظت میں مارا جاتا ہے، وہ شہید کا درجہ پاتا ہے۔ (بخاری، مسلم، ترمذی)
تیسرا اصول اخوت کا یہ ہے کہ ہر مسلمان غیبت اور بہتان سے دُور رہے، یعنی کسی شخص کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کرے، اسی طرح جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور یہ دونوں صورتیں حرام ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ ایک اور نیک ہوجائیں۔ (آمین)