مسلمانوں کے خلاف ہندو تنظیموں کے ہجوم کی جانب سے پرتشدد حملوں کا سلسلہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ جھارکھنڈ میں دو مسلم نوجوانوں کو محض اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ یہ لوگ مویشیوں کے تاجر تھے۔ اترپردیش کے ٹاؤن دادری میں گائے کے گوشت کے شبہ میں مسلم شخص اخلاص حسین کا قتل کرنے کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیموں اور کٹر پسند ہندو ہجوم کے حوصلے بڑھ گئے۔ جھارکھنڈ کا واقعہ بھی دادری کے واقعہ سے ملتا ہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے دوران اس مسئلہ پر اپوزیشن نے اپنی آواز بلند کی ہے لیکن ایوان میں حکمراں پارٹی بی جے پی کے ارکان اس موضوع پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ کانگریس قائدین خاص کر غلام نبی آزاد نے مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں کے مسئلہ کو ایوان میں اُٹھایا تو بحیثیت حکمراں پارٹی بی جے پی کا فرض تھا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور کٹر پسند ہندو ہجوم کی کارروائیوں کو روکنے کا تیقن دیتی لیکن حکمراں پارٹی اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی ملک میں بھائی چارہ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف ان کی پارٹی اور حکومت کی پالیسیوں میں تضاد پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے والے واقعات کو مختلف مقامات پر دہرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کا عرصہ حیات اب ان مٹھی بھر لوگوں کی مرضی و منشاء میں پھنسا ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اس وقت ایسے لوگ قیادت کے منصب پر فائز ہوگئے ہیں جو صرف فرقہ پرستی کو اپنی پالیسی بناکر رکھنا چاہتے ہیں۔
’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کہنے کی ضد بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس گروپ کو داخلی و خارجی سطح پر ہندوستان کی صورتحال کا اندازہ نہیں ہے۔ داخلی طور پر مسلمانوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا جارہا ہے تو خارجی سطح پر مسلمانوں کو بدنام کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو مسلم دشمن ممالک کے مطابق بنارہی ہے۔ جھارکھنڈ کے لاتیہار ضلع میں بالا ماتھ تھانہ کے جھایر گاؤں میں مویشیوں کے بیوپاریوں کو مبینہ طور پر قتل کرکے ان کی نعشوں کو درخت سے لٹکادیا گیا تھا۔ مقتول کے بھائی افضل انصاری نے گاؤ رکھشا تنظیم کے کارکنوں پر اپنے بھائی کے قتل کا الزام عائد کیا۔ پولیس نے اس واقعہ کو آپسی مخاصمت کا معاملہ قرار دے کر کیس کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن یہ واقعہ ہندوستان میں فروغ دی جانے والی مسلم دشمن ذہنیت کا تسلسل ہے۔ مسلمانوں پر حملوں کے لئے چھوٹے چھوٹے بہانے ہی کافی ہیں۔ ایک چھوٹے واقعہ میں ریلوے سفر کرنے والے مسلم معمر جوڑے کو محض اس لئے زدوکوب کیا گیا تھا کہ ان پر شبہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ گوشت لے جارہے ہیں۔ دادری واقعہ کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے خلاف سخت کارروائی نہ کرنے پر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ دادری کے بعد دہلی میں کیرالا ہاؤز کے باورچی خانہ پر دھاوا کرکے وہاں گوشت (بیف) کی موجودگی کی تصدیق کرنے کی کوشش کی گئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میس پر بھی چھاپہ مارا گیا۔
بیف فیسٹیول یا بیف کی بریانی کا مسئلہ اتنا سنگین بناکر پیش کیا گیا کہ مسلمانوں کو ہی اس معاملہ میں قصوروار ٹھہرایا گیا۔ راجستھان کی میواڑ یونیورسٹی میں کشمیری طلباء کو اس لئے زدوکوب کیا گیا کہ یہ لوگ بیف کا استعمال کررہے تھے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کو ان تمام واقعات کا علم ہے اس کے باوجود وہ اپنی جانب سے مخالف مسلم ٹولوں کو روکنے کی کوشش نہیں کررہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بیرون ملک میک اِن انڈیا کا نعرہ دیا ہے اور اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم چلانے والوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تو ایسی دو متضاد پالیسیاں ہندوستان کی ترقی کے لئے کارگر نہیں ہوں گی۔ مودی کا طرز سیاست ہندوستانی عوام کے لئے آئے دن ایک نیا چیلنج پیدا کررہی ہے۔ اگر حکمراں پارٹی اپنی سیاسی پالیسی کو صرف نفرت کی بنیاد پر آگے بڑھانے پر ہی متفق ہے تو پھر ہندوستان کی ترقی کے لئے ان کی پالیسی کوئی اہم پروگرام نہیں ہے۔ صرف لوگوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنی حکومت کی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت ماتا کی جئے کا شوشہ بھی اسی لئے چھوڑا گیا ہے تاکہ عوام حکومت کی پالیسیوں اور ناقص کارکردگی کی جانب زیادہ توجہ نہ دیں۔ بھارت ماتا کی جئے کا شور پیدا کرنے کے پیچھے بکاؤ مسلم قیادت کا سہارا لیا گیا۔ ایسی حرکتیں ملک کی بہتری کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ عوام ہر بات سے واقف ہیں اور آگے چل کر اس طرح کی پالیسیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی بلکہ خود حکمرانوں اور ان کے پس پردہ کام کرنے والے نام نہاد مسلم قائدین کی ہی بدنامی و رسوائی ہوگی۔