متبادل اراضی کا پیشکش ممکن، ریکارڈ کے اعتبار سے وقف بورڈ کا موقف مستحکم
حیدرآباد ۔ 21۔ مئی (سیاست نیوز) ہائی کورٹ میں مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کے مسئلہ پر کیا حکومت اور وقف بورڈ کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوگی ؟ یہ سوال ان دنوں محکمہ اقلیتی بہبود اور گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے عہدیداروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں مسجد یکخانہ کے مسئلہ پر ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست کی سماعت ہوئی اور ایڈوکیٹ جنرل نے ابتدائی بحث میں حکومت کا موقف پیش کرتے ہوئے مسجد کے وجود سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے عبادت گاہ کو منہدم نہیں کیا بلکہ ملگیات کو منہدم کیا گیا جس کا معاوضہ مالکین کو ادا کردیا گیا۔ ایڈوکیٹ جنرل کے اس موقف کے بعد ہائی کورٹ نے وقف بورڈ کو حلفنامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ۔ ایسے وقت جبکہ تعطیلات کے بعد ہائی کورٹ میں دوبارہ سماعت ہوگی۔ وقف بورڈ نے حلفنامہ کی تیاری کا آغاز کردیا ہے ۔ وقف بورڈ اپنے ریکارڈ کے مطابق مسجد اور عاشور خانہ کی موجودگی کا دعویٰ پیش کرے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کے دونوں ادارے ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں موقف اختیار کریں گے ؟ ان دونوں میں حکومت کی تائید اس کے ساتھ رہے گی ، یہ دیکھنا پڑے گا ۔ بتایا جاتا ہے کہ فلائی اوور کی تعمیر کے نام پر حکومت کسی بھی صورت میں اراضی حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ ضرورت پڑنے پر مقامی افراد کی مدد سے مسلمانوں کو متبادل اراضی کا پیش کیا جائے گا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جاسکے۔ وقف بورڈ کے ذرائع نے بتایا کہ اسٹانڈنگ کونسل کو وقف ریکارڈ کے مطابق حلفنامہ تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ اگر حکومت وقف بورڈ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے نہ صرف حکومت بلکہ وقف بورڈ کی نیک نامی متاثر ہوگی ۔ حکومت کے نمائندہ کی حیثیت سے وزیر داخلہ محمود علی نے ابتداء میں متبادل اراضی کی پیشکش کی بعد میں انہوں نے اسی مقام پر دوبارہ تعمیر کا تیقن دیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت ہائی کورٹ میں سماعت سے قبل وقف بورڈ ، بلدیہ ، پولیس اور دیگر محکمہ جات کے عہدیداروں کو طلب کرتے ہوئے قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش کرے گی ۔ حکومت نہیں چاہتی کہ عدالت میں حکومت کے دو ادارے متضاد موقف اختیار کریں۔ ریکارڈ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو کامیابی وقف بورڈ کے حق میں ہوسکتی ہے۔ اس حساس مسئلہ کا جائزہ لینے کیلئے پانچ عہدیداروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن اس کی رپورٹ کے بارے میں آج تک واضح نہیں ہوا کہ آیا کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی ہے یا نہیں۔