مسئلہ کی یکسوئی حکومت کیلئے وبال جان،حکومت کی حلیف مقامی جماعت کی خاموشی معنی خیز، مذہبی جماعتوں سے بھی مسلمان مایوس
حیدرآباد ۔ 16۔ مئی (سیاست نیوز) اکثر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں کسی ناکامی پر عوامی ناراضگی سے بچنے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کسی اور مسئلہ کو پیدا کردیتی ہے ۔ سابق میں اس طرح کی کئی مثالیں دیکھی گئیں جہاں حکومتوں نے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کیلئے دیگر مسائل کو چھیڑ دیا۔ کوئی بھی حکومت نہیں چاہتی کہ اس کی بدنامی ہو اور عوام اس سے بدظن ہوجائیں۔ تلنگانہ میں 18 اپریل کو انٹرمیڈیٹ نتائج کی اجرائی کے بعد سے ٹی آر ایس حکومت عملاً عوامی ناراضگی کا سامنا کر رہی ہے۔ نتائج کی اجرائی میں بے قاعدگیوں کے سبب 20 سے زائد طلبہ نے خودکشی کرلی۔ طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کیلئے سڑکوں پر اتر آئیں۔ آخر کار حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ نتائج میں خامیاں رہی ہیں۔ انٹر نتائج کی بے قاعدگیاں حکومت کے لئے دن بہ دن مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی تھی، ایسے میں حکومت کو کسی بھی طرح بحران سے نکلنا تھا ۔ ایسے میں اچانک عنبرپیٹ میں مسجد یکخانہ اور اس سے متصل عاشور خانہ کے انہدام نے عوام کی توجہ انٹرمیڈیٹ اسکام سے ہٹادی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے منصوبہ بند انداز میں انٹرمیڈیٹ اسکام سے توجہ ہٹانے کیلئے ایک حساس مسئلہ کو ہوا دی گئی۔ مسجد کی شہادت کے بعد فرقہ وارانہ تنظیموں کو مسجد کی مخالفت کا موقع مل گیا اور نئی سیاست شروع ہوگئی ۔ مسجد اور عاشور خانہ اگرچہ وقف بورڈ کے ریکارڈ میں موجود ہے، اس کے باوجود بلدی عہدیداروں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہولئے غیر مجاز قابضین سے ملی بھگت کے ذریعہ مسجد اور عاشور خانہ کو سڑک کی توسیع کے نام پر شہید کردیا ۔ انٹرمیڈیٹ اسکام سے عوام کی توجہ ہٹ گئی لیکن مسجد کی شہادت ٹی آر ایس حکومت کیلئے وبال جان بن چکی ہے ۔ چیف منسٹر اور ان کے فرزند کے ٹی آر نے آج تک اس مسئلہ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور نے بھی وقف بورڈ سے متعلق اس مسئلہ پر جائزہ اجلاس طلب نہیں کیا ۔ مسئلہ کی اہمیت ختم کرنے کیلئے وزیر داخلہ محمود علی کو میدان میں اتارا گیا جنہوں نے ابتداء میں یہ متنازعہ بیان دیا کہ مسجد میں طویل عرصہ سے نماز نہیں ہورہی تھی۔ لہذا کسی اور مقام پر مسجد کے لئے اراضی الاٹ کی جائے گی۔ موجودہ مقام سے ہٹ کر مسجد کی تعمیر کی یہ پیشکش ایک مسلم وزیر سے دلائے جانے کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما تھے ، اس کی آج تک وضاحت نہیں ہوسکی۔ وزیر داخلہ کے بیان کی جب ہر گوشہ سے مذمت ہونے لگی تو انہوں نے بیان تبدیل کرتے ہوئے اسی مقام پر جلد دوبارہ تعمیر کا تیقن دیا ۔ مسجد کی اراضی اگرچہ پولیس کی تحویل میں ہے اور وہاں کسی بھی طرح کی تعمیری سرگرمیوں کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ ایسے میں وزیر داخلہ کا یہ بیان کیا اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بیان اپنی مرضی سے دیا یا پھر حکومت کی ایماء پر دیا گیا۔ مسجد کی شہادت پر مسلمان تو بے چین ہیں لیکن حکومت کی تائید کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں رسمی طور پر احتجاجی بیان جاری کرنے کو اپنی ذمہ داری کی تکمیل سمجھ کر خاموش ہوچکے ہیں۔ ٹی آر ایس کی حلیف مقامی جماعت مجلس نے ابتداء میں مسجد کے تحفظ اور دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیا لیکن اب قیادت خاموش ہے۔ مقامی جماعت کے صدر قومی مسائل پر روزانہ میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں لیکن انہوں نے مسجد یکخانہ کی شہادت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسجد کے مسئلہ پر حکومت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوچکا ہے یا پھر مقامی جماعت کو مسجد کے بارے میں وقف بورڈ کے ریکارڈ پر بھروسہ نہیں۔ انتخابات میں ٹی آر ایس کی بڑھ چڑھ کر تائید کرنے والی مذہبی جماعتوں کے قائدین سے عوام سوال کر رہے ہیں کہ مقدس ماہِ رمضان کے دوران مسجد کی بازیابی سے انہیں دلچسپی کیوں نہیں ہے۔ انتخابی تائید کیلئے تو کے سی آر سے ملاقات کی گئی اور ان کی تعریف و توصیف کے پل باندھے گئے لیکن مسجد کے معاملہ میں آج تک کسی نے چیف منسٹر سے ملاقات نہیں کی۔ حد تو یہ ہوگئی کہ بیان دینے والی تنظیموں اور حکومت کی تائید کرنے والی جماعتوں کے قائدین نے وزیر داخلہ یا وزیر اقلیتی بہبود سے ملاقات کرتے ہوئے اپنا احتجاج درج نہیں کرایا۔ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ مسجد کے معاملہ میں خاموشی اختیار کرلی گئی۔ بابری مسجد کی شہادت پر ہر سال احتجاج کیا جاتا ہے لیکن اپنے ہی شہر میں آنکھوں کے سامنے شہید کردی گئی مسجد کو بچانے کیلئے سیاسی اور مذہبی قائدین سامنے نہیں آئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد یکخانہ کے مسئلہ کی یکسوئی حکومت کیلئے آسان نہیں ہے ۔ وہ کسی بھی فریق کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوگی۔ لوک سبھا نتائج کے بعد اگر کے سی آر مرکز میں بی جے پی کے ساتھ جاتے ہیں تو ان کا اندیشہ ہے کہ مسجد کے مسئلہ پر مقامی جماعت اور بی جے پی اپنے موقف کو سخت کرلیں گے جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ مسلم وزیر داخلہ اس مسئلہ پر مسلمانوں سے نمائندگی قبول کرنے بھی تیار نہیں ہے۔ ان سے ملاقات کے لئے پہنچنے والے نوجوانوں کو پولیس کے حوالے کردیا گیا۔