مسجد یکخانہ پر ہائی کورٹ میں سماعت، ایڈوکیٹ جنرل کا متنازعہ موقف

مسجد کے وجود سے انکار، ملگیات کا معاوضہ ادا کردیا گیا،وقف بورڈ کو حلفنامہ داخل کرنے عدالت کی ہدایت
حیدرآباد ۔ 15۔ مئی (سیاست نیوز) ایسے وقت جبکہ مسجد یکخانہ عنبرپیٹ کی شہادت کے مسئلہ پر مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے، حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ میں اختیار کئے گئے موقف نے معاملہ کو مزید سنگین بنادیا ہے ۔ تلنگانہ ہائی کورٹ نے مسجد کی شہادت کے خلاف مفاد عامہ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس کی آج جسٹس شمیم اختر کے اجلاس پر سماعت ہوئی ۔ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل ڈی ایس پرساد نے بحث کرتے ہوئے مسجد یکخانہ کے وجود سے انکار کردیا ۔ انہوں نے کہا کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے جو عمارتیں سڑک کی توسیع کے سلسلہ میں منہدم کی ہیں، وہ تجارتی ملگیات ہیں اور وہاں کوئی مسجد نہیں تھی ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مجلس بلدیہ نے ملگیات منہدم کرنے سے قبل ان کے مالکین کو معاوضہ ادا کردیا ہے ۔ ایڈوکیٹ جنرل عدالت کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ مسجد یکخانہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے۔ انہوں نے مسجد میں نماز کے اہتمام سے متعلق عہدیداروں کو ہدایت دینے درخواست گزار کی اپیل کی مخالفت کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے وقف بورڈ کے ریکارڈ کے حوالے سے مسجد اور عاشور خانہ کی موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ فریقین کی سماعت کے بعد جسٹس شمیم اختر نے وقف بورڈ کے اسٹانڈنگ کونسل کو حلفنامہ داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے مقدمہ کی آئندہ سماعت تعطیلات کے بعد مقرر کی ہے۔ درخواست گزار نے پرنسپل سکریٹری اقلیتی بہبود ، چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ ، کمشنر گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن ، کمشنر پولیس حیدرآباد اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر عنبرپیٹ کو مقدمہ میں فریق بنایا ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ وقف بورڈ اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر عنبرپیٹ کو ہدایت دیں کہ مسجد کی اراضی پر روزانہ نماز کی ادائیگی کیلئے انتظامات کریں۔

عدالت میں وقف گزٹ کی نقل پیش کی گئی جس میں مسجد یکخانہ اور عاشور خانہ حضرت عباس کا تذکرہ موجود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت اس مسئلہ کے خوشگوار حل کی کوششوں کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری طرف حکومت کے وکیل نے مسجد کے وجود سے عدالت میں انکار کرتے ہوئے نیا تنازعہ پیدا کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت ایڈوکیٹ جنرل کے موقف سے متفق ہے ؟ ایڈوکیٹ جنرل نے آخر کس کی ایماء پر یہ موقف عدالت میں رکھا ؟ آیا یہ وقف بورڈ اور محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں سے مشاورت کے بعد کیا گیا یا پھر ایڈوکیٹ جنرل نے مجلس بلدیہ کے کہنے پر مسجد کے وجود سے انکار کردیا۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی وقف ریکارڈ کے مطابق مسجد کے وجود کا اقرار کرتے ہوئے اسی مقام پر جلد دوبارہ تعمیر کا اعلان کرچکے ہیں لیکن ایڈوکیٹ جنرل کا ہائی کورٹ میں موقف بالکل برعکس ہے ۔ اب کس کے موقف کو درست تسلیم کیا جائے گا؟ ایڈوکیٹ جنرل نے آج ہائیکورٹ میں جس طرح کی نمائندگی کی ، کیا حکومت انہیں طلب کرتے ہوئے موقف تبدیل کرنے کی ہدایت دے گی، یہ تو آئندہ سماعت تک واضح ہوجائے گا۔ مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ حکومت کو متضاد موقف کے بجائے تمام محکمہ جات کے عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اس حساس مسئلہ کا حل تلاش کرناچاہئے تاکہ پرامن فضاء متاثر نہ ہو۔ اسی دوران وقف بورڈ کے اسٹانڈنگ کونسل ایم اے مجیب جو آج عدالت میں موجود تھے ، کہا کہ آئندہ سماعت تک وقف بورڈ کی جانب سے حلف نامہ داخل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وقف ریکارڈ کے اعتبار سے مسجد اور عاشور خانہ کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔