مقامی جماعت اور ٹی آر ایس کی تائیدی مذہبی شخصیتوںکی خاموشی معنیٰ خیز، محمد علی شبیر کا ردعمل
حیدرآباد ۔ 7 ۔ مئی (سیاست نیوز) قانون ساز کونسل میں کانگریس کے سابق فلور لیڈر محمد علی شبیر نے عنبر پیٹ کی مسجد یکخانہ کے تنازعہ کیلئے حکومت اور وقف بورڈ کو یکساں طور پر ذمہ دار قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ ریکارڈ رکھنے کے باوجود مسجد کے بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے خواب غفلت کا شکار رہا تو دوسری طرف وزیر داخلہ نے متنازعہ بیان دیتے ہوئے مسجد کے وجود سے انکار کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح وقف بورڈ اور حکومت کے درمیان کوئی تال میل نہیں ہے جس کے نتیجہ میں بی جے پی نے تعمیری کام میں رکاوٹ پیدا کردی۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اگرچہ یہ معاملہ محکمہ اقلیتی بہبود کے تحت آتا ہے لیکن آج تک وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور نے عہدیداروں سے مشاورت نہیں کی۔ مسجد کے تعمیری کاموں کو روکنے کیلئے جو شر انگیزی کی گئی اس بارے میں چیف منسٹر کو جائزہ اجلاس طلب کرنا چاہئے تھا ۔ رمضان المبارک سے عین قبل مسجد کے مسئلہ پر فرقہ پرست طاقتیں شہر کی پرامن فضاء کو مکدر کرنا چاہتی ہے لیکن چیف منسٹر کو اس نازک اور سنگین صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ انہیں مسلمانوں کے جذباتی مسئلہ سے زیادہ دیگر ریاستوں کے قائدین سے ملاقات کرتے ہوئے قومی سطح پر فیڈرل فرنٹ کے قیام کی فکر ہے۔ کے سی آر کو ہمیشہ عوامی مسائل سے زیادہ سیاسی فائدہ عزیز رہا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ تلنگانہ کے وزیر داخلہ امن و ضبط کی صورتحال پر جائزہ اجلاس منعقد نہیں کرسکتے کیونکہ لاء اینڈ آرڈر اور انٹلیجنس جیسے اہم امور چیف منسٹر نے اپنے پاس رکھے ہیں۔ وزیر داخلہ کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سے آج تک محمود علی نے ایک بھی جائزہ اجلاس طلب نہیں کیا کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کے سی آر نے ایک مسلمان کو وزیر داخلہ کا قلمدان ضرور دیا لیکن اختیارات نہیں دیئے ۔ انہوں نے کہا کہ مسجد یکخانہ کے مسئلہ پر مقامی سیاسی جماعت کی مجرمانہ خاموشی پر مسلمان برہم ہیں۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر احتجاجی جلسہ منعقد کرنے والی قیادت نے شہر میں اپنی تائیدی حکومت کی نگرانی میں مسجد کی شہادت پر خاموش تماشائی بنی رہی۔ پارٹی کے صدر کو علاقہ کے دورہ کی توفیق تک نہیں ہوئی ۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ حکومت کی تائید اور انتخابات میں ٹی آر ایس کے حق میں مسلمانوں کو ووٹ دینے کی اپیل کرنے والی مذہبی جماعتوں اور شخصیتوں کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کے گھر کے معاملہ میں مذہبی شخصیتیں خاموش رہیں تو پھر کون آواز اٹھائے گا۔ کیا مذہبی شخصیتوں کا کام صرف سیاسی امور میں بیان بازی کرنا ہے؟ اگر یہی بے حسی جاری رہی تو فرقہ پرست طاقتوںکے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور عام مسلمانوں کا مذہبی شخصیتوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ جب ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ کے سی آر سیکولرازم کے دعوے کرنے سے تھکتے نہیں تو پھر عنبرپیٹ سے تعلق رکھنے والے ٹی آر ایس رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی جن کے قریبی حامی مسجد کے قریب تشدد میں ملوث پائے گئے۔ انہوںنے ٹی آر ایس کے سیکولرازم کے دعوؤں کو کھوکھلا قرار دیا اور کہا کہ لوک سبھا نتائج کے بعد ٹی آر ایس مرکز میں بی جے پی کی تائید کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اس کے پاس مسجد سے متعلق تمام ریکارڈ موجود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے مسجد کے تحفظ اور غیر مجاز قبضہ کی برخواستگی پر توجہ کیوں نہیں دی گئی ؟