معاشرہ میں نئی برائی کا آغاز ۔ شادی خانوںمیں رات دیر گئے تک شور شرابہ کا سلسلہ جاری
حیدرآباد۔23اگسٹ ( سیاست نیوز ) شہر کی تقاریب میں اسراف کی لعنت کا خاتمہ ہوتا نظر تو نہیں آرہا ہے لیکن حالیہ عرصہ میں ایک اور برائی تیزی سے فروغ حاصل کرنے لگی ہے جسے فوری طور پر ختم کرنے مہم ناگزیر ہے۔ مسجد میں نکاح کا انعقاد باعث برکت ہے لیکن مسجد میں نکاح کے بعد شادی خانوں میں ترتیب دیئے جانے والے استقبالیہ میں رات دیر گئے تک ہنگامہ آرائی و موسیقی افسوسناک ہے۔ نکاح تقاریب میں عام طور پر موسیقی یا آرکسٹرا وغیرہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن حالیہ دنوں میں یہ دیکھا جانے لگا ہے کہ مساجد میں نکاح کے بعد دلہا شادی خانے کو تاخیر سے پہنچنا اور موسیقی ریز پروگرامس کا انعقاد ہونے لگا ہے۔ شہر کے نواحی علاقوں میں موجود شادی خانوں کے علاوہ شہر کے رہائشی علاقوں کے شادی خانوں میں رات 3بجے تک تقاریب کا جاری رہنا روایت بنتی جا رہی ہے اور اس روایت کے خاتمہ کیلئے فوری اقدامات نہ کئے جائیں تو یہ عادت بن سکتی ہے۔ تقاریب میں شریک مہمانوں ‘ منتظمین کے علاوہ شہریوں کو بھی تاخیر تک جاری رہنے والی تقاریب سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جاریہ سال کے اوائل میں محکمۂ پولیس ساؤتھ زون کی جانب سے شادی خانوں کے مالکین کے ہمراہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے اندرون ایک بجے نکاح یا دیگر تقاریب کو ختم کروانے کے سلسلہ میں مشاورت کا آغاز کیا گیا تھا لیکن اس ایک اجلاس کے بعد اچانک یہ مہم سرد پڑ گئی۔ پرانے شہر کے شادی خانوں کے مالکین نے پولیس کی جانب سے پیش کی گئی اس تجویز پر رضامندی ظاہر کرنے کے ساتھ مکمل تعاون کا تیقن بھی دیا تھا لیکن اس کے باوجود ناگزیر وجوہات کی بناء پر پولیس کی جانب سے کوئی پیشرفت نہیں ہو پائی۔ جاریہ شادیوں کے موسم کے دوران جو صورتحال دیکھی جا رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں شادیوں پر کروڑہا روپئے خرچ کرکے مسلم معاشرہ برائیوں اور تباہی کو دعوت دے رہا ہے۔ دونوں شہروں کے نواحی علاقوں میں ہونے والی تقاریب سے اگر شہر کے رہائشی علاقوں میں ہونے والی تقاریب کا موازنہ کیا جائے تو یقینی طور پر شہر کے چھوٹے شادی خانوں میں ہونے والی تقاریب میں اسراف کم ہوتا ہے لیکن رات دیر گئے تک تقاریب جاری رکھنے کے معاملہ میں ہر کوئی یکساں نظر آنے لگا ہے۔ محکمۂ پولیس کے اعلی عہدیدار شادی خانوں میں رات دیر گئے تقاریب کے انعقاد کے محالف ہیں لیکن اس ایک اجلاس کے بعد ان کی زبانیں بھی اس مسئلہ پر خاموش ہو چکی ہیں۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تجارتی اداروں پر جو قوانین کا اطلاق ہوتا ہے شادی خانوں پر بھی وہی قوانین لاگو ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس حد تک قانون نافذ کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ اسی طرح مسلم معاشرے کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ رات دیر گئے تک تقاریب کو جاری رکھنے سے اجتناب کریں اور ان برائیوں کی حوصلہ شکنی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ علماء و مشائخین کے علاوہ عمائدین ملت اسلامیہ کو چاہیئے کہ وہ بھی تیزی سے بڑھ رہی اس برائی کے خاتمہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔