مولوی محمد عبد العزیز
حرم اسلامی دور میں: ہجرت کے پندرہویں سال ہیکل کی آخری تباہی کے ۵۶۹ سال بعد ۶۳۶ء میں دنیا کی بے مثال فتح کے ذریعہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا، اسقف اعظم سفر ونیس (Sophronips ) نے شہر کی چابیاں خود امیر المؤمنین کو پیش کردیا۔
اور جب نماز کا وقت آیا: حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز ادا کرنے کے لئے جگہ دریافت کیا، پادریوں نے ہیکل کی اجڑی ہوئی جگہ کا نشان بتایا، جہاں کھنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا کی، اسی جگہ حرم کے دیڑھ ہزار فٹ لمبے اور ایک ہزار فٹ چوڑے احاطہ کا سنگ بنیاد رکھی، اس کے اندر زیتون اور سرو کے درخت لگائے، ایک حصہ پر چھت ڈالی گئی، یہ جگہ نماز کے لئے مخصوص ہوگئی، یہ مسجد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہلائی، ساڑھے تیرہ سو سال سے مسجد عمر، حرم اور اس کی تمام متعلقہ عمارات مسلمانوں کے قبضے میں چلی آ رہی ہیں۔ جس زمانہ میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ اور اقتدار قائم ہوا تھا، اس وقت یہودیوں نے اس دیوار پر اپنا حق ملکیت قائم کرنے کی کوشش کی۔حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے۔
۱۹۲۹ء میں یہودیوں نے اقوام عالم (انجمن اقوام متحدہ League of Nations ) میں دیوار گریہ پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا۔ انجمن نے ایک کمیشن قائم کی۔ فریقین نے کمیشن کے سامنے اپنے دلائل اور شواہد پیش کئے، جس نے مکمل چھان بین کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ قانونی اور تاریخی اعتبار سے ’’دیوار گریہ‘‘ حرم کا ایک حصہ ہے، جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے، اور ان کے مالکان حقوق بالکل درست ہیں۔یہودیوں کو صرف اس قدر حق ہے کہ وہ اس کی زیارت کے لئے یہاں آسکتے ہیں۔ لیکن بعد میں برطانیہ اور مغربی اقوام کی سازش سے فلسطین میں یہ المناک صورت پیداہوئی کہ۱۴,اور ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ ء کی درمیانی رات ’’ریاست اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا (انا للہ وانا الیہ راجعون) اور شہر بیت القدس کے کچھ حصہ پر بھی یہود کی اس نام نہاد حکومت کو قبضہ دیدیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش ہے۔ اور ایسی سازشوں کا سلسلہ مسلم امت کے خلاف جاری ہے، اللہ حفاظت فرمائے۔آمین
یہود کی تمام شرارتوں کے باوجود انتہائی رواداری کا ثبوت دیا جاتا رہا۔ حتی کہ ۱۹۴۸ ء کی جنگ کے دوران بھی دیوار گریہ کی زیارت کے لئے زائرین کی خاطر عارضی جنگ بندی اور مکمل حفاظتی پہرہ کے ساتھ یہود کے لئے وہاں زیارت و عبادات کے انتظامات کئے گئے۔
غضب الٰہی میں ہزاروں سال اللہ تعالی کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے رہے، یہودیوں کو ہر قوم ٹھوکریں مارتی رہیں، جس ملک میں رہنے گئے وہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے، پھر بھی مسلمان روا داری کا ثبوت دیتے رہے۔ مسلمان باوجود اقتدار کے دیوار گریہ کی زیارت کی اجازت دیتے رہے۔ لیکن مارچ ۱۹۸۳ء میں ایک دن اچانک چند سر پھرے دہشت گرد یہودیوں نے حرم شریف (بیت المقدس) پر زبر دستی قبضہ کی کوشش کیا لیکن بفضل تعالی یہود اس ناپاک سازش میں ناکام رہے، ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ حرم شریف کو نیست و نابود کرکے دیوار گریہ اور ہیکل سلیمانی کا احیا کیا جائے۔
گنبد صخرہ اور مسجد اقصیٰ: فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کی غرض سے شاید یہ منصوبہ اپنا یا جارہا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اول کو نشانہ بنا کر سارے عالم اسلام کو برباد کردیا جائے اس کے لئے ساری دنیا کے ذہنوں سے مسجد اقصی کے خاکے کو مٹا یا جا رہا ہے۔ غور فرمائیے گنبد صخرہ (زرد گنبد) کو ہی مسجد اقصیٰ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد سنہرے گنبد والی مسجد کو ہی مسجد اقصی سمجھ رہی ہے۔ یہودی سازش کا پہلو یہ ہے کہ جب صیہونی یہودی اصل مسجد اقصی کو شہید کردیں گے تو عالم اسلام کا شدید رد عمل ناقابل برداشت رہے گا، اور تمام اختلافات ختم کرکے عالم اسلام ایک ہوجائے گا، مسجد اقصیٰ کا نام لیا جائے گا اور سنہرے گنبد کو دکھایا جاتا رہے گا۔ عیسائیت اور یہودیت کی عظیم اور ناپاک اتحادنے آخری اور فیصلہ کن جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ یہ حالات اس امت کے لئے کچھ نئے نہیں ہیں۔ قربِ قیامت میں پیش آنے والے حالات پہلے ہی بتائے جا چکے ہیں، اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ اب تنہا امت کو ان حالات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ماضی میں کٹھن حالات کا مقابلہ دینی حمیت رکھنے والوں کے ساتھ کچھ خواص (یعنی حکمراں) بھی شامل رہے تھے۔
یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ ہو: ۱۴/مئی ۲۰۰۷ء کے اسرائیلی روزنامہ ہارئس کی اطلاع کے بموجب مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودیوں کا داخلہ ان کے مذہب کی رو سے حرام تھا، کیونکہ قدس الاقداس کی جگہ کونسی ہے معلوم نہیں، داخلہ سے یہ خطرہ ہے کہ پاؤں اس جگہ پڑجائیں گے اور وہ مقام روندا جائے گا، جس کی وجہ سے بے حرمتی ہوگی اور یہ حرام ہے لیکن اب اس حرمت کو جواز میں تبدیل کرنے کے لئے فتوی حاصل کیا گیا۔ مرکزی صیہونی مذہبی تحریک سے وابستہ تین اہم حافانوں (مذہبی اونچے درجہ کے پیشوا) نے اس کے جواز کی وکالت کی ہے۔اور اسرائیل کے سب سے بڑے مرکزی حافام کے منصب (گویا یہودی مذہبی بڑا پیشوا) کے دعویدار اور امید وار سے بھی جواز کا فتوی دے کر شروع سے لگی اس پابندی وحرمت کو اباحت و جواز میں تبدیل کردیا ہے، اس سلسلہ کی خطرناک سازش مقدس حوض کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس منصوبہ کے تحت نام نہاد مذہبی مقدس مقامات قدیم شہر، وادی قدرون اور جبل زیتون کے علاقہ میں ۵۔۲۲ کلو میٹر کے رقبہ میں یہودی رنگ چڑھایا جائے اور اسلامی آثار مٹائے جائیں۔
برکت کی جگہ: قرآن مجید نے پانچ جگہ تو یہ اعلان کیا کہ یہاں برکت ہے سورہ اعراف ’’وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ‘‘ الخ،سورہ اسراء میں سُبْحَانَ الَّذِیِ اَسْرٰی الخ‘‘سورہ انبیاء میں ’’وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْأرض الخ، وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً الخ‘‘ سورہ سباء میں ’’وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ وَبَیْنَ الْقُرٰی الخ‘‘ اسرائیل یہاں جم کر بیٹھا ہوا ہے اور عیسائی حفاظت کر رہے ہیں، سارے کفار تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
عالم اسلام انتشار کا شکار ہونے کے باوجود فلسطینی آج بھی نہتے مزاحمت کر رہے ہیںاور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر تائید کریںاور انہیں ان کا حق دلائیں ،ساتھ ہی ساتھ انسانیت کا مظاہرے کرتے ہوئے ہمیں انہیں دواء اور غذا بھی فراہم کرنا چاہئے۔
اللھم نبھنا عن نومۃ الغفلین، اللھم اصلح ولاۃ امورنا وامنا فی اوطاننا، اللھم دمر واھلک اعدائک واعداء الاسلام۔ اٰمین بحرمۃ سید المرسلین ﷺ۔