مسجد اقصیٰ کا تاریخی پس ِمنظر

محمد عبد العزیز

قسط اول
اقصیٰ (بمعنی دور )عربی زبان کا لفظ ہے ،یہاں بطور اسم استعمال ہے۔ عالم اسلام کا بچہ بچہ اس نام سے اور اس کی عظمت شان سے واقف ہے۔ ۱۰ نبوی میں (۲۷ویں رجب شب دوشنبہ کو) اللہ تعالی کی جانب سے خاص اور منفرد سفرکی دعوت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام (مکہ مکرمہ، کعبۃ اللہ شریف) سے لے جایا گیا، اس سفر کی پہلی منزل مسجد اقصیٰ رہی پھر ساتوں آسمانوں کی سیر، عالم برزخ کا مشاہدہ، عالم حشر کے سماں کا نظارہ کراتے ہوئے خالق کائنات سے بلا فصل ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔اس واقعہ (معراج) کی فورابلا تردد تصدیق پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار خلیفہ اول حضرت سیدناابو بکر رضی اللہ عنہٗ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب عطا ہوا۔

مسجد اقصیٰ کی عظمت: روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمد للہ پنجوقتہ نماز با جماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین اور تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہے۔اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، فلسطین کی پاک سر زمین انبیاء کرام کامسکن رہاہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیاء بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپہ چپہ پر انبیاء کرام علیھم السلام کے نشانات موجود ہیں، گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں، اس خطہ کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شئی اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے، اس ارض مقدس (مَقْدَسْ بھی کہا گیا)کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو ’’اَلْقُدْسْ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں یروشلم (JERUSALEM )کہا جاتا ہے۔

اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت ہے جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ چلی آتی ہے، یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے، اور مسجد صخرہ (سنہری گنبد والی مسجد) بھی ہے۔یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک پرانا شہر ہے ، دوسرا نیا شہر ہے۔ پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیواروں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں۔ گنبد صخرہ، مسجد اقصیٰ اور قیامت چرچ ہے۔
مسجد اقصی کے اطراف۱۶۰۰ میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر۹ دروازے ہیں، جو (۱) باب رحمت (۲) باب حطہ (۳) باب فیصل (۴) باب غواغہ (۵) باب ناظر (۶) باب حدید (۷) باب قطانبین (۸) باب سلسلہ (۹) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔

گنبد صخرہ: مشہور ماہر آثار قدیمہ دان برجیم کہتا ہے کہ سادہ انداز کی نہایت متوازن عمارت بلا شبہ اسلامی تعمیرات کا قابل فخر سرمایہ ہے۔ اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے ۶۸ ھ مطابق ۶۸۸ء میں شروع کروایا جو چار سالوں بعد ۷۲ ھ مطابق ۶۹۱ ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ گنبد صخرہ کو (مسجد صخرہ بھی کہا جاتا ہے) حرم قدسی کی زمین سے ۳۰ میٹر بلند ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو آٹھ کونوں والی ہے، ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کی دوری ۲۰ میٹر اور اونچائی ۱۵ میٹر ہے، نچلی منزل کے دیوار پر نہایت حسین سفید مرمر لگا ہوا ہے، جس پر فیروزے کلر کا ٹائلز بھی ہے، اور اس کے اندر سفید کلر میں سورہ یٰسین تحریر ہے، ان آٹھ گوشوں میں رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جس کی تعداد ۵۶ ہے۔ اسی صخرہ کے نیچے غار انبیاء علیھم السلام ہے، جہاں پہنچنے کے لئے ۱۱ سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر دو پٹ والے چار دروازے ہیں، اس کے اندر سنگ مرمر سے بنے ۱۶ ستون ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہٗ ۱۴ ھ مطابق۶۳۶ء میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی منزل تلاش کیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہٗ کو اذان کا حکم دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز پڑھایا۔ یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔
مسجد صخرہ (گنبدہ صخرہ) کی تعمیر کے بعد ۷۲ ھ مطابق ۶۹۱ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس کی تعمیر کا آغاز کیا، اور تکمیل ان کے فرزند ولید بن عبد الملک (چھٹویں خلیفہ) کے دور میں ہوئی، جس پر ولید کے دور حکمرانی کے ۷ سال کے محاصل (ٹیکس) کی خطیر رقم اس تعمیر پر صرف ہوئی، مسجد اقصی کی لمبائی ۸۰میٹر اور چوڑائی ۵۵ میٹر ہے۔ اور ۲۳ مرمری اونچے ستونوں اور ۴۹ چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت ۷۰۵ ء میں مکمل ہوئی ہے، دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔
مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے سات شمال میں ہیں۔ پانچ بار اس کی تعمیر ہوئی، موجودہ تعمیر ۱۰۳۵ء کی ہے۔ یرو شلم شہر کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بہ یک وقت۰۰۰،۵۰ مسلمان نمازپڑھ سکتے ہیں،۱۵/ جولائی۱۰۹۹ء کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا قبضہ ہوا۔
ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوںاور بچوں کا قتل عام کیا گیا، اور مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا، اس میں لہو لعب کے کام وہاں ہوئے اور کئی حصوں کو رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کیاگیا۔ ۱۲/اکٹوبر ۱۱۸۷ء کو وہ عظیم الشان موقعہ آیا، جب مسجد اقصی عیسائی قابضین سے واپس مل گئی یہ عظیم کامیابی بطلِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی کے شہر فتح کرنے پر حاصل ہوئی، سلطان نے عمارات اور مسجد میں تبدیلیوں کو ختم کیا پھر مسجد اقصیٰ اصلی حالت پر لائی گئی۔ مسلمانوں نے مسلسل ایک ہفتہ تک پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔

عظیم الشان نادر منبر سلطان صلاح الدین غازی نے حلب میں تیار کراکے مسجد میں نصب کیا۔ ۱۵/ اگست ۱۹۶۷ء بڑے کرب کا دن تھا جب ایک آسٹریلوی یہودی سیاح مائیکل روہن اسرائیلی حکومت کی ایماء پر مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دیا، تقریباً چار گھنٹوں تک یہ آگ بھڑکتی رہی جس سے جنوب مشرقی سمت کی چھت شہید ہوگئی اور سلطان کا وہ نادر یادگار منبر جل کر راکھ ہوگیا۔سیاح روہن کو گرفتار کرکے معمولی سزا سنائی گئی۔

مسلم قبرستان: مسجد صخرہ اور مسجد اقصیٰ کے قریب قبرستان ہے جس کی بڑی اہمیت ہے، مدینہ منورہ کے بعد یہاں دفن کئے جانے کو ترجیح دیاگیاہے۔ اس قبرستان کے دروازوں کو متنازعہ کہ کر بند کر دیا گیا، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان ہی دروازوں سے مسیح علیہ السلام یروشلم میںداخل ہوں گے۔