ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویؐ سے شرار بو لہبی
مسجد اقصیٰ اسرائیلی دھاوے
اسرائیل کی بربریت پر خاموشی اختیار کرنے والی عالمی طاقتوں نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور دراندازی کے واقعات پر بھی چشم پوشی سے کام لیا ہے تو یہ افسوسناک واقعہ ہے۔ اسرائیل کے زیرتسلط بیت المقدس میں مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کیلئے پابندی عائد کرنا اور یہودی پولیس کی کھلی جارحیت کو روکنے سے عالمی اداروں کی مجرمانہ غفلت کے نتیجہ میں مشرق وسطیٰ میں جو صورتحال پیدا ہورہی ہے وہ دن بہ دن بھیانک رخ اختیار کرتی جائیں گی۔ اس واقعہ کے بعد صرف اردن نے ہی تل ابیب میں متعین اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام ممالک احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل کو انتباہ دیتے۔ اردن نے اپنے سفیر کی بازطلبی کے ساتھ بیت المقدس میں اسرائیلی جارحیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باضابطہ طور پر اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا کے پرامن ممالک ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس دہشت گردی کی مذمت نہیں کی۔ اسرائیل ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتا آرہا ہے۔ فلسطینیوں کے انسانی حقوق کو پامال کررہا ہے اس کے باوجود عالمی انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد ادارے، مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ عالم اسلام میں اس وقت چند ایک ممالک ہی فلسطینیوں کی صورتحال پر تشویش ظاہر کررہے ہیں۔ صدر ترکی رجب طیب اردغان کو بھی اسرائیلی زیادتیوں کا احساس ہے وہ اپنی سطح پر اسرائیل کی شدید مخالفت کرتے آرہے ہیں مگر ان کی آواز کے ساتھ دیگر ہم آہنگ آوازوں کی کمی کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے جارہے ہیں۔ مغربی کنارہ میں غیرقانونی آبادیوں کی تعمیر کو روکنے کیلئے بھی عالمی طاقتیں حرکت میں نہیں آرہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حال ہی میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیل نے جنگ کے دوران جو بربریت انگیز کارروائی کی تھی وہ جنگی جرائم کے مترادف تھے مگر اس پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کی کسی نے بھی ہمت نہیں دکھائی۔ اسرائیل نے ایک سے زائد مرتبہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے مگر اس کے خلاف کوئی عالمی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے جرائم کا جو ریکارڈ پیش کیا ہے اس کی یو این او میں کیا اہمیت ہے یا کسی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نزدیک اس رپورٹ کو کتنی اہمیت دی جائے گی یہ سبھی جانتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت میں بھی جب فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں کیا جاتا تو یہ عالمی کھلی بزدلی کہلائے گی۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف بین الاقوامی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے مگر ان کی آواز کو سنی ان سنی کی جارہی ہے۔ یروشلم اور بیت المقدس کے تازہ واقعات عالمی اداروں کیلئے فوری توجہ چاہتے ہیں۔ مسلمانوں نے مقدس مقامات کی بے حرمتی اور انہیں بند کردینے جیسے یہودیو ںکی چالیں مشرق وسطی میں ایک اورانتفادہ کی جانب اشارہ دیتی ہیں فلسطینیوں نے ہمیشہ ہی سے اسرائیلی جارحیت کا ایمانی حرارت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ اس مرتبہ بھی بیت المقدس پر کارروائی کے خلاف احتجاج کرکے اپنے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیلی غیرقانونی کارروائیوں کے نتیجہ میں جو سنگین صورتحال پیدا ہوگی اور اس کے بعدازاں برآمد ہونے والے نتائج کیلئے خود اسرائیل ذمہ دار ہوگا۔ اردن کے شاہ عبداللہ نے جو بیت المقدس کے خادم ہیں اسرائیلی فورس کی امن معاہدات کی خلاف ورزیوں پر اپنا احتجاج درج کروایا ہے اب امریکہ سمیت تمام مغربی ملکوں کو اس مسئلہ پر فوری مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کو اس کے 1994ء کے کئے گئے امن معاہدہ کی جانب توجہ دلائی جانی چاہئے۔ اقوام متحدہ کو فلسطینیوں پر ہونے والی جارحیت و بربریت کو روکنے کی فکر نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ خود عالم اسلام کی معنی خیز خاموشی یا عربوں کی نرم پالیسی ہے جس سے اسرائیل کو جارحیت کیلئے کھلی چھوٹ مل رہی ہے۔ اسرائیل کے اطراف موجود عرب ممالک اور ان کے سربراہ متحدہ و منظم فیصلہ کرلیں تو اسرائیل کی ہمت اور بربریت انگیز منصوبوں کو کمزور کرنے میں کامیابی ملے گی مگر افسوسناک سچائی یہ ہیکہ عرب اقوام اور ان کے سربراہوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے اختیارات و طاقت کو استعمال نہیں کیا۔ بیت المقدس پر دھاوؤں کے خلاف یروشلم میں ہوا حالیہ کار حملہ تیسرے انتفادہ کے ابھرنے کی جانب اشارہ دیتا ہے۔ اس خطرے کے باوجود اسرائیل اپنے عوام کی حفاظت کیلئے دیگر حربے اختیار کررہا ہے۔ اگر اس مرتبہ فلسطینیوں کے انتفادہ نے شدت اختیار کرلی تو اسرائیل کو ماضی کے 1980 اور 2000 ، 2005 کے انتفادہ سے زیادہ بھیانک صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں انسانی جانوں کے ضائع ہونے انسانی حقوق کی پامالی کے کئی واقعات رونما ہوسکتے ہیں لہٰذا عالمی برادری کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔