علامہ سید احمد سعید کاظمی
ذات باری تعالی اور توحید خداوندی کا مسئلہ ایسا نہ تھا، جس کو ثابت کرنے کے لئے استدلال کی ضرورت پیش آتی۔ چنانچہ فطرت انسانی کا اصل مقتضا یہی تھا کہ وہ صانع حقیقی اور معبود برحق کو تسلیم کرنے میں ادنی تامل کو بھی گوارا نہ کرتا، لیکن بسا اوقات اصل فطرت کے اپنے حال پر رہنے کے باوجود خارجی اسباب کی بنا پر متعلقات فطرت میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، جس طرح ایک تندرست آدمی غلبۂ مرض سے مغلوب ہوکر بعض طبعی تقاضوں سے متنفر ہونے لگتا ہے۔ ہم رات دن دیکھتے ہیں کہ مریض کی طبیعت ازالۂ مرض کی خواہاں ہوتی ہے، اس کے باوجود مریض علاج سے جی چراتا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ شیرینی طبیعت سلیمہ کو پسند ہے، لیکن غلبۂ صفراء کی وجہ سے وہ پسندیدہ چیز آدمی کو تلخ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح علم و ادب انسان کا فطری مقتضا ہے، لیکن بری صحبت کے اثرات اس طبعی تقاضہ سے انسان کو متنفر کردیتے ہیں۔
ارواح منکرین کا بھی یہی حال ہے کہ اس عالم قید و بند میں اگر وہ اپنے ماحول سے ایسی متاثر اور مغلوب ہوئیں کہ ان کا جوہر معرفت جہالت سے تبدیل ہوگیا۔ جو روحیں عالم ارواح میں ’’بلٰی‘‘ کہہ کر اپنے رب کی ربوبیت کا اقرار کرکے یہاں آئی تھیں، وہ اس دنیا میں اس کی نفی پر دلائل سوچنے لگیں اور یقین و معرفت کی دولت سے محروم ہوکر شکوک و شبہات کی ذلت میں مبتلا ہو گئیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں انھیں بھٹکی ہوئی روحوں کے لئے اپنی ذات و صفات اور وحدانیت کے اثبات پر دلائل و براہین قائم فرماکر ان کی اصل فطرت کے تقاضا کو پورا فرمایا۔غور سے دیکھا جائے تو سارا قرآن پاک دلائل توحید سے بھرپور ہے، ان میں بعض آفاقی ہیں، جن کا تعلق آفاق عالم سے ہے اور بعض انفسی ہیں جو براہ راست نفس انسانی سے متعلق ہیں۔ بعض دلائل توحید مخاطبین کی فہم کے لحاظ سے صرف اقناعی ہیں اور بعض قطعی۔ قرآن مجید کا یہ معجزانہ انداز بیان خاص طورپر قابل توجہ ہے کہ ایک ہی دلیل اقناعی بھی ہے اور برہان قطعی بھی۔ سردست قرآن مجید سے وجود باری تعالی پر ایک دلیل نقل کر رہے ہیں۔
اللہ تعالی جل شانہ ارشاد فرماتا ہے: ’’جس نے پیدا کئے سات آسمان تہ بر تہ۔ کیا دیکھتا ہے تو رحمن کے پیدا کرنے میں کچھ فرق۔ پھر دوبارہ نگاہ کر، کہیں نظر آتی ہے تجھے کوئی دراڑ، پھر بار بار لوٹاکر دیکھ، لوٹ آئے گی تیری طرف تیری نگاہ درماندہ ہونے کی حالت میں تھک کر‘‘۔ (سورۃ الملک۔۳،۴)
نظام عالم کی جس ہمواری اور ترتیب کو اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے، وہ نہ صرف ذات باری تعالی اور اس کی صفات کمالیہ، علم و قدرت اور صنعت و حکمت ہی کی دلیل ہے، بلکہ اس نے منکرین وجود باری کے شکوک و شبہات کا بھی ازالہ کردیا۔ منکرین وجود باری آج تک یہ کہتے چلے آئے کہ تمام موجودات کا ظہور کسی صانع کے بغیر محض اتفاقی طورپر ہو گیا ہے۔ یہ نظم و ارتباط جو ہمارے مشاہدے میں آتا ہے محض اتفاقی ہے، کسی خالق اور صانع کی خلقت اور صنعت کا نتیجہ نہیں۔
نفسیات انسانی کے پیش نظر مضمون آیت کی روشنی میں اس کا ازالہ اس طرح ہوتا ہے کہ انسان جب کسی نظام میں ہمواری اور ترتیب کا مشاہدہ کرتا ہے تو وہ طبعاً یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ یہ خود بخود قائم نہیں ہوا، بلکہ کسی نے اسے قائم کیا ہے اور جہاں کہیں یہ نظم و ضبط مفقود ہو تو انسان سمجھ لیتا ہے کہ یہ ناہمواری اور عدم ارتباط ایک قضیۂ اتفاقیہ ہے۔
کوہ و بیابان کا مسافر جب کسی صحرا میں ریت کے ناہموار ٹیلوں سے گزرتا ہے اور کوہستان میں چلتے ہوئے بے ترتیب پڑے ہوئے پتھر اس کے سامنے آتے ہیں تو بے اختیار اس کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ محض اتفاقی طورپر ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے ناہموار صورت میں یہ ریت کے ٹیلے پیدا ہو گئے ہیں اور یہ پتھر بارشوں کے باعث پہاڑوں سے ٹوٹ کر بے ترتیبی کے ساتھ اِدھر اُدھر آپڑے ہیں۔
اس کے برخلاف اگر وہ ایک عالیشان عمارت سے گزرے اور اس کی تعمیر بہترین ترتیب پر اسے نظر آئے اور وہ اس میں ہر قسم کے سازوسامان کو قرینے کے ساتھ دیکھے تو اس کا ذہن ہرگز اس باتکو قبول نہ کرے گا کہ یہ بہترین نظم و ترتیب اور ہر چیز کا سلیقے کے ساتھ اپنی جگہ پایا جانا خود بخود ہو گیا ہے اور محض اتفاقی طورپر یہ بہترین عمارت حوادث کونیہ کے نتیجے کے طورپر ازخود تعمیر ہو گئی ہے اور اس کا سازوسامان ہواؤں کے چلنے اور بارشوں کے ہونے کی وجہ سے اتفاقی طورپر یہاں پہنچ گیا ہے، بلکہ وہ یہی سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ اس عالیشان مکان کی تعمیر و تزئین اس کے جملہ لوازمات اور کل سازوسامان کسی دانشور منتظم کی تنظیم و تعمیر کا نتیجہ ہے۔
اس بیان سے یہ شبہ بھی دور ہو گیا کہ صحرا، کوہستان اور دیگر مقامات پر جو بے ترتیب اشیاء نظر آتی ہیں، اگر انھیں تخلیق ایزدی سے خارج قرار دے کر قضیہ اتفاقیہ کے تحت سمجھ لیا جائے تو غالباً درست ہوگا۔
ازالہ کی توضیح یہ ہے کہ ترتیب کبھی حسی ہوتی ہے کبھی معنوی، اگر کہیں حسی ترتیب نہ پائی جائے تو ہم سمجھ لیں گے کہ مرتب محسوس مفقود ہے، لیکن اس مقام پر ترتیب معنوی اور اس کے موجد سے ہمارے پاس اس تصور کو کوئی تعلق نہ ہوگا۔ لہذا ترتیب کے بے ترتیب ٹیلوں اور ناہموار پتھروں کو دیکھ کر ہم ان کے بے ترتیبی کو امور اتفاقیہ کے تحت یقیناً لاسکیں گے، لیکن ترتیب معنوی کو اس حکم میں شامل کرنا ہرگز درست نہ ہوگا، نہ اس کے موجد کی نفی متصور ہوسکے گی، بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ بعض اشیاء کی ظاہری بے ترتیبی میں اللہ تعالی نے یہ حکمت مضمر فرمائی ہے کہ انسان جب اس قسم کی غیر مرتب اشیاء دیکھے گا تو نفسیاتی طورپر اس کا ذہن فوراً اس طرف منتقل ہوگا کہ ترتیب کا نہ ہونا مرتب کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ اور قطعی مفاد یہ ہے کہ انسان ترتیب کو پاکر مرتب کے وجود کو تسلیم کرنے کا داعیہ اپنے باطن میں محسوس کرے گا اور یہ سمجھے گا کہ جس طرح ترتیب حسی مرتب محسوس کے وجود کی دلیل ہے، اسی طرح ترتیب معنوی مرتب غیر محسوس کے موجود ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ بے ترتیب اشیاء بھی عقل مند انسان کے لئے ہستی باری تعالی کی دلیل ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں، جب کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ہر شے کو اپنی معرفت کی دلیل قرار دیا ہے۔
اس مقام پر اتنی بات کہہ دینا بے محل نہ ہوگا کہ بعض اشیاء میں جو ظاہری بے ترتیبی پائی جاتی ہے، درحقیقت اس کے پس پردہ ایک زبردست ترتیبی نظام موجود ہے، کیونکہ بے ترتیبی کا یہ تغیر جن اسباب سے متعلق ہے، وہ سب اصول حکمت اور قوانین قدرت کے ماتحت ہیں۔ مثلاً ہواؤں کا چلنا، پانی کا برسنا، موسموں کا بدلنا، شب و روز گزرنا، سورج کا نکلنا اور ڈوبنا، چاند کا اپنے منازل کو طے کرنا، بہترین و مناسب ترتیب اور مضبوط و مستحکم نظام کے ساتھ ہے اور یہ سب اصول و قوانین اور سارا نظام بجائے خود دلائل قدرت کا ایک وسیع ترین سلسلہ ہے، لہذا ہر چیز خواہ مرتب نظر آئے یا غیر مرتب اسے وجود باری تعالی کی دلیل سمجھنا فطرت سلیمہ کا مقتضا ہے اور ظاہری بے ترتیبی میں نظم و ترتیب کی بے شمار حقیقتوں کو مضمر جاننا عقل و خرد کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوگا کہ دلائل معرفت میں غور و تدبر کی تاکید، اسی حقیقت پر مبنی ہے۔
مضمون آیت کو اس تفصیل کے ساتھ ذہن نشین کرکے نظام عالم پر گہری نظر ڈالئے اور دیکھئے کہ وہ کیسا مضبوط نظام ہے، جواہر و اعراض کس طرح باہم مربوط ہیں، عناصر کا امتزاج کس شان سے ہے، موالید ثلاثہ میں کیا تعلق ہے۔ اشیاء عالم کی اوضاع و اشکال، ہیئات و مفاد پر اثرات و خواص اور مختلف اوصاف کو ملاحظہ فرمائیے، پھر ان میں ایک خاص قسم کے تناسب پر نظر کیجئے۔ آپ کی ہر نظر معرفت اور یقین کے جواہر اپنے دامن میں لے کر واپس آئے گی۔ پھر بلا تامل آپ کہیں گے کہ یہ سب کچھ خالق کائنات ہی کے علم و حکمت اور قدرت و صنعت کے جلوے ہیں۔